بھارت چین کے 'نئے نقشے' سے اتنا برہم کیوں ہے؟
30 اگست 2023بھارت نے سفارتی چینلز کے ذریعے چین سے اس کے نئے'معیاری نقشے' پر سخت احتجاج درج کرایا اور کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے ''سرحدی مسائل کے حل کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گا۔''
چین نے اروناچل کے کھلاڑیوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزا نہیں دیا
اس سے قبل منگل کو بھارتی میڈیا میں یہ خبریں زور شور سے شائع ہوئی ہوئیں کہ چین نے اپنا جو نیا ''معیاری نقشہ'' جاری کیا ہے اس میں چینی سرحد کو وسعت دی گئی ہے اور بھارتی ریاست اروناچل پردیش اور اکسائی چن کے سطح مرتفع کو چینی علاقہ قرار دیا گیا ہے۔
'ایل او سی سے متعلق بھارتی وزیر کا بیان قابل مذمت'، پاکستان
واضح رہے کہ بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ریاست اروناچل پردیش فی الوقت بھارت کے زیر کنٹرول ہے، جس پر چین اپنی خود مختاری کا دعوی کرتا ہے اور اسے تبت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ چین اروناچل کے شہریوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزا بھی نہیں جاری کرتا ہے۔
'مودی اور شی باہمی تعلقات بحال کرنے پر متفق'، چین کا دعویٰ
اکسائی چن کے علاقے پر چین کا کنٹرول ہے، تاہم اس پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اکسائی چن تبت کو مغربی چین سے جوڑنے والا ایک سطح مرتفع ہے اور چین کے لیے اسٹریٹیجک کوریڈور کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
بھارت کا سخت رد عمل
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے منگل کو ایک بیان میں کہا، ''ہم نے آج چین کے نام نہاد 2023 کے اس 'معیاری نقشے' پر سفارتی ذرائع کے ذریعے چینی فریق کے ساتھ سخت احتجاج درج کرایا ہے، جس میں بھارت کی سرزمین پر دعویٰ کیا گیا ہے۔''
آئیے سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے بات کریں، چینی اعلیٰ سفارت کار
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ چین کی طرف سے اس طرح کے اقدامات صرف سرحدی مسائل کے حل کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔''
بھارت اور چین میں اب ایک دوسرے کا کوئی صحافی نہیں
نئی دہلی کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ بیجنگ کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' کے جاری کردہ نقشے میں دو علاقے بھارت کے ہیں۔ اس میں سے ایک بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش ہے اور دوسرا اکسائی چن کا علاقہ ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی، ایک مقامی نیوز چینل کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب میں یہ کہتے ہوئے چین کے دعووں کو مسترد کیا کہ ''مضحکہ خیز دعوے کرنے سے دوسروں کے علاقے آپ کے نہیں بن جاتے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''چین نے ایسے نقشے تیار کیے ہیں جو ان کے علاقے نہیں ہیں۔ (یہ ان کی ایک) پرانی عادت ہے۔ محض بھارت کے کچھ حصوں کے نقشے پر دکھانے سے۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں بدلتا ہے۔ ہماری حکومت بہت واضح ہے کہ ہمارا علاقہ کون سا ہے۔''
چین کے نقشے پر نئی دہلی کا احتجاج ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب گزشتہ ہفتے ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات کی تھی اور متنازعہ سرحدی کے مسئلے پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ملاقات کے بعد بھارت نے کہا تھا کہ مودی نے چینی صدر پر اس بات کے لیے زور دیا کہ ایل اے سی کا ''احترام'' ضروری ہے۔ دونوں ملکوں نے اس موقع پر لداخ میں ایل اے سی پر کشیدگی کو تیزی سے کم کرنے پر اتفاق بھی کیا تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری ونئے کواترا نے اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''برکس سربراہی کانفرنس کے دوران مودی کی صدر شی جن پنگ سے بات چیت ہوئی۔۔۔۔ بات چیت میں وزیر اعظم نے ایل اے سی اور بھارت چین سرحد پر دیگر علاقوں میں 'غیر سلجھے' معاملات پر بھارت کے خدشات سے آگاہ کیا۔''
بیجنگ نے اس ملاقات کو ''شفاف اور گہرائی سے خیالات کا تبادلہ'' قرار دیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ ''دونوں فریق کو اپنے باہمی تعلقات کے جامع مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور بارڈر مینجمنٹ ٹھیک سے کرنا چاہیے تاکہ مشترکہ طور پر سرحد ی علاقے میں امن کی حفاظت کی جا سکے۔''
دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ کافی پرانا ہے، تاہم گزشتہ چند برسوں سے سرحد پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔ خاص طور گلوان کے تصادم کے بعد جس میں دونوں جانب سے فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے بھارت نے شہری موجودگی کو فروغ دینے اور نئی نیم فوجی بٹالین قائم کرنے کے لیے سرحد کے اطراف میں رابطوں کے منصوبوں میں بھی اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔.