یورپ کی ٹائیگر چین پر سواری کی کوشش، تبصرہ
2 اپریل 2022کئی عشروں سے یورپی، خاص طور پر جرمن، چین کی جانب سے استعمال ہونے والے احمقوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ترقی، تبدیلی بذریعہ تجارت اور عوام کے ایک وسیع حصے کے حالات زندگی بہتر بنانے کے ساتھ جمہوریت کو آگے لے کر چلنے کی کوشش کی۔
اس دوران وہ طویل عرصے تک چینی صدر شی جن پنگ کے خود پسندانہ طرز حکومت کو نظرانداز کرتے رہے۔ اب یوکرین کی جنگ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہی ہمارا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے؟
شی اور پوٹن کے مابین قربت
یہ معاملہ چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان دوستی یا قربت کو ختم کرنے کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ ایسا سوچنا بھی یوٹوپیا یا کسی مثالی دنیا کے تصور کے مترادف ہوگا۔ سوال صرف یہ ہے کہ چینی قیادت پوٹن کو کس حد تک سینے سے لگانا چاہتی ہے اور کیا وہ روس کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک شراکت داری کو مغربی ممالک کے سکیورٹی خدشات پر ترجیح دینے کے لیے تیار ہے۔
چینی صدر شی کے نظریے کے تحت چین اور روس، آمرانہ نظام حکومت پر قائم دو بڑی ریاستیں، مستقبل قریب میں مغربی نظام کو ختم کر سکتی ہیں۔ لیکن پوٹن کی جانب سے یوکرین پر مسلط کردہ جنگ ان کی خواہش کے مطابق نتائج نہیں دے سکی۔ روسی معیشت کے ساتھ ساتھ ماسکو کا طاقت ور اثر و رسوخ بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کریملن کے سیاسی فیصلوں نے چین میں بھی شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔ لہٰذا بیجنگ اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
لیکن چینی حکمت عملی بظاہر دور کی کوڑی لگ رہی ہے اور وہ طویل المدتی مقاصد کے لیے مضبوط شراکت داری جاری رکھنا چاہتا ہے، تاکہ مستقبل میں سستی توانائی کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی لیے بیجنگ حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ فریق بننے پر مجبور نہیں ہونا چاہتی۔ اب تک تو چین نے یہی کیا ہے، روس کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ اور جنگ کی مذمت سے گریز۔
معاشی پابندیوں کا خوف
دوسری جانب چین خود اقتصادی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ یورپی یونین اس کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور اس سے چین کو اپنی اقتصادی ترقی جاری رکھنے کی ضمانت ملتی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے چین قطعی طور پر یورپی یونین اور امریکہ کو اپنے ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہے گا۔
یوکرین کی جنگ پر مغربی ردعمل کے عزم سے چین بھی حیران دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے اب صدر شی سفارتی داؤ پیچ آزماتے ہوئے دونوں طرف کی بات کر رہے ہیں۔ وہ روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور مغرب سے بھی دوری نہیں بڑھانا چاہتے۔
یورپی یونین کو چین پر بظاہر ایک اقتصادی برتری حاصل ہے، جس سے وہ بیجنگ کو روس کو ہتھیاروں کی ممکنہ ترسیل یا پابندیوں سے بچنے کے لیے سہولت فراہم کرنے سے روک سکتا ہے۔ مگر ایک طرح سے چین کا پلڑا بھی یوں بھاری ہے کہ یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کافی حد تک چینی سیلز مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے معاشی پابندیوں کے میدان میں وزن دونوں جانب برابر ہے۔ اسی تناظر میں برلن حکومت پیرس کی مدد سے چین پر سخت نکتہ چینی کو کم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
غیر معمولی صورت حال میں واضح پیغام
یورپی یونین اور چین کے سربراہی اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ورچوئل ملاقات کے دوران یورپی یونین کے رہنماؤں نے یہ واضح کیا کہ یوکرین کی جنگ یورپی سلامتی کے مرکزی مفادات کو متاثر کرتی ہے، جسے بیجنگ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ جنگ کو روکنے، اسے جلد از جلد ختم کرنے اور پھر دیرپا امن کے لیے مذاکراتی عمل کی کوشش میں ناکام نہیں ہونا چاہتے۔ معاملات پہلے کی طرح 'معمول کے مطابق‘ تو جاری نہیں رہیں گے اور اس کا کوئی سفارتی حل نہیں ہے۔ یہ واضح پیغام یورپی یونین کی جانب سے موجودہ غیر یقینی حالات میں دیا گیا ہے۔
سیاسی جغرافیائی اعتبار سے یورپی یونین گزشتہ دو برسوں میں چین پر اپنی گرفت کھو چکی ہے، خاص طور پر جب سے اس نے چین کو ایک 'مختلف نظام والا حریف‘ قرار دے کر سرمایہ کاری معاہدوں کو روکا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں اسے یہ بھی دیکھنا پڑا کہ بیجنگ نے کس طرح تائیوان کے معاملے میں چھوٹے سے یورپی ملک لیتھوانیا کو دیوار سے لگا دیا۔
یورپ کو سختی سے مقابلہ کرنا ہو گا
اس وقت سب سے مشکل کام طاقت کا نیا توازن قائم کرنا ہو گا۔ کم از کم یورپ نے اب یہ سمجھ لیا ہے کہ اسے اپنے مفادات اور سلامتی کے لیے سخت جدوجہد کرنا ہو گی اور واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ وہ دن گئے جب اقتصادی مفادات ہر چیز پر غالب آ جاتے تھے۔
جغرافیائی بنیادوں پر سیاست کا یہ نیا دور یورپی یونین کو مشکل انتخاب اور قربانیوں پر بھی مجبور کرے گا اور اسے ہمیشہ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے اس سوال کا جواب دینا پڑے گا: سب سے اہم کیا ہے، یوکرینی عوام کا خون یا پھر یورپی ممالک کی خوشحالی؟ مزید یہ کہ اس جدوجہد کے دوران مستقبل کے سیاسی جغرافیائی دھڑوں کے بارے میں ایک قسم کا ابتدائی فیصلہ بھی کیا جائے گا۔ اس وقت سب کچھ ہی تو داؤ پر لگا ہے۔
باربرا ویزل (ع آ / م م)