کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ پر ایک سوال وائرل ہوا، جس میں خواتین سے پوچھا گیا کہ وہ جنگل میں خود کو کس کے ساتھ محفوظ محسوس کریں گی؟ ایک اجنبی مرد کے ساتھ یا ایک ریچھ کے ایک ساتھ؟ تقریباً 95 فیصد خواتین نے ریچھ کا انتخاب کیا، جو بہت سے مرد حضرات کو گراں گزرا۔ سوال اور اس کے جواب نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس کے بعد سی این این تک نے اس پر ایک آرٹیکل لکھ ڈالا۔ ٹک ٹک اور انسٹا پر تو اس سوال اور اس کے جواب کے خوب چرچے ہوئے۔
پھر یہی سوال کچھ خواتین نے مردوں سے یوں کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو کس کے ساتھ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں؟ زیادہ تر مردوں نے بھی اس صورت میں ریچھ کا ہی انتخاب کیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ریچھ شاید صرف جان سے مارے گا البتہ مرد کی درندگی کی کوئی حد نہیں ہے۔
بھارت میں ڈاکٹر ممیتا کی ہولناک موت کے بعد یہی لگتا ہے کہ کاش اس میڈیکل کالج میں رات کو صرف ریچھ ہی پائے جاتے۔ ان کی تشدد زدہ لاش کئی مردوں کے بے رحمی سے کیے گئے مظالم کی ایک دردناک کہانی سناتی ہے، جس سے شاید درندے بھی پناہ مانگیں۔
مميتا کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ ان کے والدین نے دن رات محنت کر کے اپنی اکلوتی اولاد کو ڈاکٹر بنایا اور 9 اگست کی بدقسمت رات نے انہیں ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ڈیوٹی پر موجود خواتین ڈاکٹر کے لیے کوئی الگ کمرہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد سیمینار ہال میں سستانے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے صبح ان کی لاش ملی۔
انتظامیہ نے پہلے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور پھر پرنسپل نے کہا کہ انہیں رات کو سیمینار ہال میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ کیا ان کی جان اتنی سستی تھی کہ اسے خود کشی کا رنگ دینا یا پھر انہیں خود ہی ذمہ دار ٹھہرانا مناسب سمجھا گیا؟ کب تک ہم متاثرہ کو الزام دیں گے اور اصل مجرم کی پشت پناہی کریں گے؟ کب تک ہم اس سوچ کو قابل قبول سمجھیں گے؟
2012ء میں دلی میں ایک چلتی بس میں 22 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد ایک تحریک نے جنم لیا اور خواتین کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے گئے مگر وہ یقیناً ناکافی ہیں۔ 2022ء کے حکومتی ڈیٹا کے مطابق بھارت میں ایک دن میں جنسی زیادتی کے اوسطا 90 واقعات درج ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مميتا کے قتل کی دردناک خبر سے کوئی سنبھل نہیں پایا تھا کہ 20 اگست کو لاہور کے گنگا رام ہسپتال سے ایک پانچ سالہ بچی کے جنسی استحصال کی خبر سننے کو مل گئی۔ جیسے ڈاکٹر مميتا کے کالج کے پرنسپل نے کہا کہ انہیں سیمینار ہال میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا اسی طرح اس بچی کو شاید ہسپتال میں علاج نہیں کروانا چاہیے تھا؟
گزشتہ ماہ ملتان میں ثانیہ زہرہ کو ان کے شوہرنے شدید تشدد اور قتل کے بعد پنکھے سے لٹکا دیا تاکہ یہ قتل نہیں خودکشتی تصور کیا جائے۔ ان کی عمر صرف 20 سال تھی اور وہ تیسری اولاد کے ساتھ حاملہ تھیں۔ ان کے جبڑے، پاؤں، پسلیاں اور کئی ٹوئی ہوئی ہڈیاں ان کے شوہر کی درندگی کا ثبوت تھے۔ کاش ان کے والدین نے اپنی 15 سالہ بیٹی اس جانور سے نہ بیاہی ہوتی، کاش ہمارا معاشرہ کم عمری کی شادی اور شوہر کے تشدد کو قابل قبول نہ سمجھتا۔
پبلک ٹرانسپورٹ سے درسگاہوں تک، ہسپتالوں سے سڑکوں تک، دفاتر سے دکانوں تک ہر روز ہراسگی کے لاتعداد واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ چند روز قبل ایک سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر سامنے آئی، جہاں ایک موٹر سائیکل سوار جس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی ہے، وہ گلی میں ایک باحجاب خاتون سے دست درازی کر رہا ہے۔
یعنی ایسے لوگ فخریہ اپنی گندی ذہنیت، عورت کی کمزو ثابت کرنے اور مرد ہونے کی مراعات کو اپنی اگلی نسل کو تھما رہے ہیں؟ ایسی نازیبا حرکتوں کا دفاع کرنے کے لیے عام طور الزام عورت کے لباس پر عائد کیا جاتا ہے۔ عبایہ پہنے اپنی گلی سے گزرتی لڑکی کو کس طرح قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ شاید سب عورتوں کا قصور پیدا ہونا اور سانس لینا ہے۔
پدر شاسی سوچ کو بڑھاوا اور مردوں کو ظلم کی اجازت دینے میں خواتین خود بھی شامل ہیں، جو سمجھتی ہیں کہ ان کے بھائی اور بیٹے ہر پابندی سے آزاد ہیں۔ یہاں تک کہ ایسا ظلم ہونے کے بعد عام طور پر بددعا بھی گنہگار کو نہیں دیتے۔ یہی بددعا دی جاتی ہے کہ مجرم کی اپنی بہن بیٹی کے ساتھ ایسا ہو۔
یعنی گنہگار کی بھول کر اس کے گھر کی عورت کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب تک ہماری معاشرتی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی اور ہم عورتوں پر ہونے والے ظلم کا ادراک نہیں کریں گے شاید کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
ہمارے ہاں سڑکوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے خواتین کو پریشان کرتے ہوئے مرد بھی اگر کبھی مغربی ممالک پہنچ جائیں تو وہ ایسی جرأت وہاں نہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نہ تو قانون کوئی رعایت دے گا اور نہ ہی معاشرہ کسی ایسی بے تکی دلیل کو قبول کر گے۔ چاہے لڑکی نے مختصر کپڑے پہن رکھے ہوں یا شام يا رات کے وقت اکیلی ہی کیوں نا موجود ہو، مجرم کو سزا ملے گی۔
مجرم کے لیے کوئی عذر اور دفاع کی بے جاصورت نکالے بغیر فوری انصاف نہایت ضروری ہے۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے برابر ہے۔ سخت اور فوری انصاف کے ساتھ ساتھ سوچ کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔ "مرد تو ایسا کرتے ہی ہیں" کو" مرد تو عورت کی عزت کرتے ہیں" میں بدلنا بہت ضروری ہے۔ اس سوچ کو بدلنے میں والدین، اساتذہ، میڈیا سب کو اپنا کردار نبھانا ہو گا۔
اس تبدیلی کے لیے انفرادی ذمہ داری قبول کرنا بہت ضروری ہے۔ نجی محفلوں، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، درسگاہوں، یہاں تک کہ واٹس ایپ گروپس میں بھی ایسا مزاح قابل قبول نہیں ہونا چاہیے جو عورت کی تذلیل کرے۔ یہ سچ ہے کہ ہر مرد ظالم نہیں ہے مگر ہر مرد اپنا کردار نہیں نبھا رہا۔
اس آگاہی پھیلانے میں پڑھے لکھے اور اعلی ظرف مردوں کو خواتین سے کہیں آگے ہونا چاہیے کیونکہ "ہم تو ایسے نہیں ہیں " اب کافی نہیں رہا، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ سوچ کی تبدیلی سے صرف ایک عورت محفوظ نہیں ہوگی بلکہ سب مردوں کی بہنیں، بیٹیاں، بیویاں، مائیں، دوست، کولیگس ہر روپ میں انسان محفوظ ہوں گے۔
بحیثیت ایک ماں یہ خبریں سن کر میرا دل کانپ جاتا ہے۔ ہم کب تک اس بنیادی حق کو پانے کی جدو جہد کرتے رہیں گے؟ کیا کبھی یہ زمین ہماری بیٹیوں کے لیے محفوظ بن پائے گی؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔