ڈاکٹر قدیر خان اسمگلنگ نیٹ ورک: تین سوئس شہریوں پر فرد جرم عائد
14 دسمبر 2011باضابطہ فرد جرم سوئس حکام کی جانب سے ایک دہائی کے قریب جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد عائد کی گئی ہے جس میں خطرناک ملکوں کو جوہری پھیلاؤ روکنے کے لیے ایک انتہائی کامیاب انٹیلی جنس آپریشن سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
بیرن میں وفاقی استغاثہ دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ 46 سالہ اُرس ٹنر، اس کے بھائی 43 سالہ مارکو اور ان کے والد 74 سالہ فریڈرش پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبد القدیر خان کے جوہری اسمگلنگ نیٹ ورک کو حساس ٹیکنالوجی اور اس کا علم فراہم کیا۔
عبد القدیر خان کے اسمگلنگ گروہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز جیسے اہم سامان کی مختلف ملکوں کو فروخت میں ملوث تھا، یہاں تک کہ 2003ء میں اس کی سرگرمیاں روک دی گئیں۔
استغاثہ کے مطابق ٹنر خاندان نے ایک چھوٹے قانونی طریقہ کار کی درخواست پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کے تحت ملزمان خود پر لگائے گئے الزامات کی صحت تسلیم کر لیں گے مگر انہیں پانچ سال قید سے زیادہ کی سزا نہیں ہو گی۔
اگر وفاقی فوجداری ٹریبیونل کے ججوں نے یہ درخواست مان لی تو تحقیقات کے سیاسی لحاظ سے حساس پہلوؤں کو عام نہیں کیا جائے گا۔
ایک نامعلوم چوتھے ملزم نے بھی اس معاملے میں معاون کردار ادا کیا تھا اور اس پر سوئٹزر لینڈ کے اسلحہ برآمد کرنے کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں ایک مختلف مقدمہ چلایا جائے گا۔
استغاثہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سی آئی اے کے ساتھ ٹنر خاندان کے تعاون کا سوال ہنوز حل طلب ہے کیونکہ سوئس حکومت نے اس معاملے میں فوجداری مقدمہ قائم کرنے کی درخواست کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
ارس ٹنر کو تفتیش کی غرض سے پانچ سال حراست میں رکھنے کے بعد دسمبر 2008ء میں رہا کیا گیا تھا اور اس نے 2009ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس نے امریکی انٹیلی جنس کو خفیہ اطلاع دی تھی کہ سینڑی فیوجز کے حصوں کی ایک کھیپ لیبیا کے جوہری پروگرام کے لیے بھیجی جا رہی تھی۔
کھیپ لے جانے والے بحری جہاز کو 2003ء میں اطالوی بندرگاہ ترانتو کے قریب پکڑ لیا گیا جس کے بعد لیبیا نے مجبور ہو کر اپنے ممکنہ جوہری پروگرام کا اعتراف کر لیا اور بالآخر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں ترک کر دیں۔
سی آئی اے نے ماضی میں کہا تھا کہ عبد القدیر خان نیٹ ورک کو روکنا ایک حقیقی انٹیلیجنس کامیابی تھی۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی