ڈاکٹر قدیر کی رہائی پر سخت تشویش ہے: امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن
7 فروری 2009ڈاکٹر قدیر کا کہنا ہے کہ ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ ان کی رہائی کے بارے میں امریکہ کیا سوچتا ہے۔ مگر کیا پاکستان کے مقتدر حلقوں کو بھی اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ امریکہ کیا سوچتا ہے؟ ظاہری طور پر پاکستان کی ایک سولین حکومت کے دور میں کیا گیا یہ فیصلہ پاکستانی فوج کس طرح دیکھ رہی ہے؟
سن دو ہزار چار میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے جوہری معلومات اور ٹیکنالوجی شمالی کوریا اور ایران کو غیر قانونی طور پر منتقل کی تھیں۔ اس قت کے صدرِ پاکستان اورافواجِ پاکستان کے سربراہ پرویز مشرّف نے ڈاکٹر قدیر کو گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ بعد ازاں ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ انہوں نے اعترایف بیان پاکستانی جرنیلوں کے دباؤ پر دیا اور یہ کہ ان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ حال ہی میں ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ڈاکٹر قدیر کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر قدیر سے رہائی کے بعد جب پوچھا گیا کہ ان کی رہائی پر بین الاقوامی برادری برادری کیا ردِ عمل ظاہر کرے گی تو متنازعہ جوہری سائنسدان نے حسبِ عادت قوم پرستانہ اور مذہبی کلمات ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری جو بولنا چاہے وہ بولے۔
تاہم اوباما انتظامیہ کو پاکستان کی نئی سول حکومت کی ڈاکٹر قدیر کے لیے نرمی پر تشویش ہونا لازمی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کے مطابق ڈاکٹر خان اب بھی جوہری پھیلاؤ کے معاملے میں ایک خطرہ ہیں۔ امریکی زرائع ابلاغ اور ماہرین کے مطابق ڈاکٹر قدیر کا جوہری پھیلاؤ کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے مطابق ڈاکٹر اے کیو خان کا نیٹ ورک تحلیل ہوچکا ہے اور ان سے اب کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر قدیر کی رہائی سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے جوہری پھیلاؤ میں ملوّث ہونے کا معاملہ بھی ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور شاید یہ معاملہ اب دوبارہ سر اٹھائے گا۔