ڈی ایچ اے فراڈ کیس، سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقات
9 جنوری 2016پاکستان کی مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نومبر 2013ء میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ اب اس مقدمے میں مبینہ طور پر ملوث اپنے بھائی کامران کیانی کی وجہ سے ایک بار پھر میڈیا میں اُن کا تذکرہ سننے میں آ رہا ہے۔ پاکستان میں آج کل ہر طرف زیر بحث اس مقدمے کو ’ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کرپشن کیس‘ کہا جا رہا ہے۔ اس احتسابی کاروائی کو شروع کرنے کے لیے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے قومی احتساب بیورو سےدرخواست کی تھی۔
عسکری امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 16 ارب روپے مالیت کے ڈی ایچ اے کرپشن کیس میں گرفتار ہونے والے شخص حماد ارشد کی کمپنی گلوبیکو دراصل پہلے جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی کی ملکیت تھی۔ اس کمپنی نے 2009ء میں لاہور میں ڈی ایچ اے کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کی رُو سے اسے 25000 کنال اراضی ڈی ایچ اے کو فراہم کرنا تھی۔
بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی کے مطابق اس کمپنی نے ڈی ایچ اے سے فائلیں لے کر مارکیٹ میں بیچ دیں، اس طرح جمع ہونے والا اربوں روپے کا سرمایہ مبینہ طور پر دوسرے کاروباروں میں لگا لیا لیکن یہ کمپنی ڈی ایچ اے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق غیر متنازعہ، پوری اور ایک ساتھ زمین فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس طرح لاہور ڈی ایچ اے سٹی کے اس منصوبے کے تحت پاک فوج کے شہداء، زخمیوں اور دیگر لوگوں کو پلاٹ نہ دیے جا سکے۔
ہفتے کے روز لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات میں ڈی ایچ اے کی طرف سے ایک تفصیلی اشتہار شائع ہوا ہے، جس میں گلوبیکو کمپنی کی طرف سے زمین کی فراہمی میں ناکامی کے باعث نیب سے رجوع کرنے کی اطلاع دی گئی ہے۔
بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی کے مطابق جنرل کیانی کا اس سکینڈل سے کوئی براہ راست واسطہ نہیں تھا البتہ ان کے بھائیوں کی ساکھ بہتر نہیں تھی:’’وہ جنرل کیانی کے دور سے ہی ایسے پراجیکٹس لیتے رہے ہیں۔ ان کے نام ای او بی آئی سمیت کئی دوسرے منصوبوں کے حوالے سے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اب قومی احتساب بیورو کو شفاف طریقے سے اس سکینڈل کی تفتیش کر کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا وگرنہ عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں سویلین لوگوں کے خلاف تو کارروائی ہوتی ہے لیکن عسکری شخصیات کے رشتے داروں کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو جانا ہی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستانی فوج اس ضمن میں مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔
ملٹری امور پر دسترس رکھنے والے ایک اور ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنرل کیانی کے پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ بھائیوں کا نام ان کے دور میں ہی سامنے آنا شروع ہو گیا تھا:’’میری اطلاع کے مطابق اس کیس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اجازت خود موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عسکری کے بقول پاکستان آرمی کو اپنی ساکھ بہت عزیز ہے اور لگتا ہے کہ یہ کارروائی اس کی رضامندی سے ہو رہی ہے:’’پاکستان آرمی نہ چاہتی تو نیب کی کیا مجال تھی کہ وہ یہ تحقیقات کر سکتی۔‘‘
ڈاکٹر عسکری کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں (جنہیں کرپشن کے الزامات کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کا سامنا رہتا رہا ہے) ان تحقیقات پر کس قسم کا رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کامران کیانی اس وقت دبئی میں ہیں اور انہیں پاکستان لا کر شامل تفتیش کیے جانے کا امکان ہے۔
ادھر کامران کیانی کے ایک اور بھائی امجد کیانی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ بعض حلقے محض بغض اور عناد کی وجہ سے ان کے خاندان کو بدنام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کامران کیانی پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔
ادھر پنجاب میں نیب کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ ملزم سویلین ہو یا سابق فوجی، تحقیقات قانون کے مطابق ہوں گی۔