ڈی ڈبلیو کا آزادی اظہار ایوارڈ صادق زیباکلام کو دے دیا گیا
13 جون 2018صادق زیباکلام تہران یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے ایک پروفیسر ہیں۔ ان کا شمار ایران کے معروف ترین سیاسی ماہرین اور روشن خیال افراد میں ہوتا ہے۔ وہ سخت گیر نظریات کے حامل افراد، حکومتی اہلکاروں کے موقف اور ملکی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کرنے کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔
جنوری 2018ء میں جب ہزاروں ایرانی شہری حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور سیاسی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، زیباکلام نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ احتجاج ایرانی عوام کا ہے، کسی غیر ملکی طاقت کا نہیں۔ انہیں حکومت کے موقف کو رد کرنے کی پاداش میں مارچ 2018ء میں اٹھارہ ماہ کی سزائے قید بھی سنائی گئی تھی۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے، جس میں حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں سنایا گیا۔
منگل کی شام یہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، ’’میں نے اسلامی ایران میں ایک دن بھی قید میں نہیں گزارا۔ لیکن بہت سے ایرانی مصنف، صحافی، وکلاء، خواتین، انسانی حقوق کے کارکن، مزدور رہنما، طلبہ، ناقدین، حکومت کے مخالفین اور مذہبی رہنما، جن میں شیعہ، سنی، بہائی، مسیحی، درویش اور صوفی بھی شامل ہیں، اپنی اپنی زندگیوں کے کئی کئی سال سلاخوں کے پیچھے گزار چکے ہیں۔‘‘
اس جگہ، جہاں صادق زیباکلام کو آزادی اظہار کا یہ ایوارڈ دیا گیا، ڈی ڈبلیو کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ اس مظاہرے میں شریک خواتین و حضرات کی تعداد دس کے قریب تھی اور ان کا موقف تھا کہ زیباکلام حکومت کے بہت ہی قریب رہ چکے ہیں۔
زیباکلام نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے دیے گئے اس ایوارڈ کو سیاسی اسیر عباس امیر انتظام کے نام کیا، جنہوں نے ستائیس برس اوین نامی جیل میں گزارے ہیں۔ زیباکلام کے بقول امیر انتظام جدید ایران میں آزادی اور جمہوریت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی علامت ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران آزادیٴ اظہارِ رائے کا یہ ایوارڈ سعودی بلاگر رائف بدوی، ترک اخبار حریت کے مدیر سیدات ایرگِن اور امریکا میں وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی تنظیم ڈبلیو ایچ سی اے کو بھی دیا جا چکا ہے۔