ڈیوڈ کیمرون پر لیبیا پر بمباری کے حوالے سے سنگین الزامات
14 ستمبر 2016بدھ چَودہ ستمبر کو برطانوی پارلیمان کی فارن افیئرز کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق نہ صرف بمباری کے احکامات غلط مفروضوں کی بنیاد پر دیے گئے بلکہ کیمرون بمباری کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی موزوں منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے۔
یہ رپورٹ اُن حالات کا تجزیہ کرتی ہے، جن میں 2011ء میں برطانیہ نے فرانس کے شانہ بشانہ لیبیا میں فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا۔ تب کیمرون حکومت نے کہا تھا کہ لیبیا میں بمباری اُن شہریوں کو بچانے کے لیے شروع کی گئی، جنہیں آمر حکمران معمر القذافی کی حکومت تعاقب کا نشانہ بنا رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق:’’(کیمرون) حکومت قذافی حکومت کی جانب سے شہریوں کو درپیش حقیقی خطرات کی تصدیق نہیں کر سکی تھی، اس نے نہ صرف معمر القذافی کے جذباتی بیانات کو ہی حقیقت سمجھ لیا بلکہ وہ باغیوں کے اندر موجود انتہا پسند اور عسکریت پسند عناصر کو بھی پہچاننے میں ناکام رہی۔ برطانیہ کی حکمتِ عملی کی بنیاد غلط مفروضوں اور شواہد کی ناکافی اور غیر مکمل تفہیم پر مبنی تھی۔‘‘
معمر القذافی کی اقتدار سے محرومی اور ہلاکت کے تقریباً پانچ سال بعد بھی لیبیا بدستور انتشار کا شکار ہے، وہاں دو متوازی حکومتیں اقتدار کے لیے لڑ رہی ہیں اور ملک کے معدنی تیل کے قیمتی ذخائر پر قبضے کی جنگ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین کرسپن بلنٹ کے مطابق تب لندن حکومت کچھ اور راستے بھی اختیار کر سکتی تھی، جن کے نتائج بھی بہتر ہوتے:’’سیاسی مکالمت کے نتیجے میں نہ صرف شہریوں کا تحفظ کیا جا سکتا تھا بلکہ حکومت کی تبدیلی اور اصلاحات کا ہدف بھی لیبیا اور برطانیہ کو کم نقصان پہنچا کر حاصل کیا جا سکتا تھا۔ برطانیہ سیاسی راستہ اختیار کرتا تو اُس کا ذرہ برابر بھی نقصان نہیں ہونا تھا لیکن اس کی بجائے برطانیہ نے اپنی توجہ صرف اور صرف فوجی طاقت کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے پر مرکوز کر دی۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق حکومت کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ بغاوت کا فائدہ انتہا پسند عناصر کو ہو گا۔ اس رپورٹ میں کیمرون کو ’لیبیا کے حوالے سے کسی مربوط پالیسی کی تیاری میں ناکامی کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار‘ قرار دیا گیا ہے۔
جہاں سابق وزیر خارجہ لائم فوکس اور سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی معلومات فراہم کرتے ہوئے کمیٹی کے ساتھ تعاون کیا، وہاں ڈیوڈ کیمرون نے اپنی بھرپور مصروفیات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کمیٹی کے سامنے بیان دینے سے معذرت کر لی تھی۔