کاروں سے پیدا ہونے والی آلودگی اور اس کا سدباب
27 اپریل 2010يورپی يونين نے 10 سال پہلے ہی گاڑيوں سے خارج ہونے والے دھويں اور نائٹروجن آکسائڈ کی روک تھام کے لئے ايک ضابطہ منظور کيا تھا۔ اس ميں يہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ يورپی يونين کے رکن ممالک خود يہ فيصلہ کرسکتے ہيں کہ وہ آلودگی کو يونين کی مقرر کردہ زيادہ سے زيادہ مقدار سے کم رکھنے کے لئے کيا اقدامات کرتے ہيں۔
يورپی يونين نے ،موٹر گاڑيوں سے خارج ہونے والے دھويں اور ماحول اور صحت کے لئے مضر گيسوں کی آلودگی سے يورپی شہروں کو کسی حد تک محفوظ رکھنے کے لئے جو ضابطہ بنايا ہے اُس کے تحت ہر شہر کو يہ اختيار ديا گيا ہے کہ وہ خود يہ فيصلہ کرے کہ وہ ماحولياتی تحفظ کے زون کب قائم کرے گا، ليکن اُسے يورپی يونين کی طرف سے مضر مادوں کی زيادہ سے زيادہ اجازت شدہ مقدار کی پابندی کو سن 2011 تک عملی شکل دے دينا ہوگی۔
جرمنی کے جنوبی صوبے باويريا کے صدرمقام ميونخ کے اندرونی حصے کو اکتوبر سن 2008 سے ماحولياتی زون قرار دے ديا گيا ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ بہت زيادہ دھواں اور ماحول اور صحت کے لئے مضر مادے خارج کرنے والی گاڑيوں کا ميونخ کے اندرونی حصے ميں داخلہ منع ہے۔ يہ آسانی سے معلوم کرنے کے لئے کہ کون سی موٹر کار ماحولياتی زون ميں داخل ہوسکتی ہے، ايک سبز، سرخ يا پيلی پرچی دی جاتی ہے جو گاڑی کی ونڈ اسکرين پر چپکا دی جاتی ہے۔ اگر کسی موٹر کارکے ايکزھاسٹ پائپ سے خارج ہونے والے مضر مادوں کی مقدار ناقابل برداشت حد تک زيادہ ہو تو اُس کے لئے کوئی بھی پرچی جاری نہيں کی جاتی۔
شہر ميونخ کے، ماحوليات اور صحت کے ذمے دار يو آخم لورينس کہتے ہيں: ’’ہم نے ميونخ ميں پہلے ، بغير پرچی والی گاڑيوں کے، شہر کے ماحولياتی زون ميں داخلے کو روکنے کا سلسلہ شروع کيا۔ يکم اکتوبر سن2010 سے ہم سرخ پرچی والی گاڑيوں اور 2 سال بعد پيلی پرچی والی گاڑيوں کو بھی ماحولياتی زون ميں داخل نہيں ہونے ديں گے۔‘‘
ميونخ ميں، تقريباً 4 لاکھ شہری ماحولياتی زونوں کے اندر رہتے ہيں جن ميں داخلے کی اجازت صرف پرچی والی موٹر گاڑيوں ہی کو دی جاتی ہے۔ ان ماحولياتی زونوں کو ٹريفک کے ايسے نشانات کے ذريع پہچانا جا سکتا ہے جن پر يہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اُن ميں کون سی پرچی والی گاڑی کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔
اس ضاطے کی نگرانی پوليس کرتی ہے۔يو آخم لورينس کا کہنا ہے کہ بعض کار والوں کی برہمی کے باوجود يہ ضابطہ ضروری ہے:’’اس کا مقصد گاڑی والوں کو تنگ کرنا نہيں بلکہ ہوا ميں ايسے مضر مادوں کی مقدار کو ايک حد ميں رکھنا ہے جو صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہيں۔ گردو غبار کے بہت باريک ذرات کينسر بھی پيدا کرسکتے ہيں۔ عالمی تنظيم صحت نے ايسے اعدادو شمار مرتب کئے ہيں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہوا ميں مضر مادوں کی وجہ سے ہزاروں اموات ہو چکی ہيں۔‘‘
يو آخم لورينس کے مطابق زيادہ مضر مادے خارج کرنے والی پرانی موٹر گاڑيوں ميں ايسے فلٹر لگانا چاہئيں جو ايکزھاسٹ پائپ سے خارج ہونے والے دھويں اور اُس ميں مضر مادوں کو کم کرسکيں۔اگر کوئی کار والا اپنی کار کا داخلہ ممنوع ہونے کے باوجود ماحولياتی زون ميں کار چلاتا ہے تو جرمانے کی رقم ادا کرنے کے علاوہ ٹريفک کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے اندراج کے مرکزی رجسٹر ميں اُس کو ايک منفی پوائنٹ بھی ديا جاتا ہے۔ اگر کسی کے رجسٹر ميں پوائنٹس کی تعداد 18 تک پہنچ جائے تو اُس کا لائسنس ضبط کر ليا جاتا ہے۔ جرمانے کے ان پوائنٹس پر جرمنی کے کار چلانے والوں کے سب سے بڑے کلب ADAC کو سخت اعتراض ہے۔
ميونخ ميں اس کلب کے ترجمان ميشائل نيڈے ماير کا کہنا ہے کہ ڈرائيونگ لائسنس کی ضبطی غير ضروری ہے: ’’مضر مادوں کے اخراج کو دوسرے طريقوں سے بھی کم کيا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ مثلاً نئی تيکنيک سے۔اس کے علاوہ ٹريفک کو اس انداز سے چلانے سے بھی مضر مادے کم کئے جاسکتے ہيں کہ گاڑيوں کو کم سے کم رکنا پڑے کيونکہ رکنے اور پھر چلنے سے بہت زيادہ مضر مادے ہوا ميں پھيلتے ہيں۔ خراب ربط والے ٹريفک سگنلز کو بہتر بنانے سے دھويں کے باريک ذرات کی مقدار ميں ايک چوتھائی اور نائٹروجن آکسائڈ کے اخراج ميں نصف کی کمی ممکن ہے۔‘‘
يورپی يونين کے رکن ممالک نے ٹريفک کی وجہ سے شہروں ميں آلودگی کی روک تھام کے لئے الگ الگ طريقے اپنائے ہيں ليکن کئی اقدامات مشترک بھی ہيں۔ مثلاً آسٹريا،ہالينڈ اور برطانيہ نے بھی جرمنی ہی کی طرح ماحولياتی زون قائم کئے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ