’کیا عرب خواتین استحصال کا شکار ہیں؟‘
15 مارچ 2019
مغربی دنیا میں عام افراد عرب دنیا کی کسی خاتون سے ملتے ہیں تو عمومی سوال ہوتا ہے، ’’کیا آپ استحصال کا شکار ہیں؟‘‘ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہے؟
مجھے شام کی اپنی ایک دوست یاد آتی ہے، جس نے ایک بار کہا تھا کہ اسے پرفیوم کی بوتلوں پر لگے لیبل سے نفرت ہے، ’’خواتین کے لیے پرفیوم اور مردوں کے لیے کولون جیسے الفاظ نہیں ہونا چاہییں۔ میرے خیال میں ان پر خوشبو لکھا ہونا چاہیے۔‘‘
وہ مذاق نہیں کر رہی تھی۔ ظاہر ہے پرفیوم اس کے لیے زیادہ اہم نہیں تھا بلکہ وہ اپنی ایک خاص طرز کی صورت حال سے تنگ آ چکی تھی اور آزادی کا سانس لینا چاہتی تھی۔
میری دوست دو بچوں کی والدہ تھی اور نہایت کم عمری میں اس کی طلاق ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے کئی برس ایک نہایت مشکل قانونی جنگ میں گزار دیے اور اسے لگتا تھا کہ وہ اس صورت حال سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ اس نے کئی برس کسی اچھی ملازمت کی تلاش میں لگا دیے، مگر وہاں بھی کامیابی نہ ملی۔
پدرسری کس طرح لڑکیوں کے انتہائی ذاتی خیالات پر اثرانداز ہوتی ہے؟
شام کے پدرسری معاشرتی نظام کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جہاں کسی عورت پر نگرانی کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اس کے کام کرنے کی صلاحیتوں کو محدود بنا دیا جائے۔ ایسے میں وہی مرد، جس نے عورت کی آزادیوں کو محدود کیا، وہ انسانی حقوق کی بابت لمبی لمبی تقریریں کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے دماغ اب بھی قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں قید ہیں۔
جب میں ٹین ایجر تھی، تو میں شاعری کیا کرتی تھی۔ میں ’شام‘ کو اپنی نظموں میں موضوع بنایا کرتی تھی، جیسے وہ کوئی میرا محبوب ہو۔ میں نے اس لڑکے کا نام کبھی لکھنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی، جسے میں پسند کرتی تھی، بلکہ میں اسے ملک کے نام کے پیچھے چھپا دیتی تھی، تاکہ کوئی میری جانب انگلی نہ اٹھائے اور میری تذلیل نہ ہو۔
لڑکوں کو تاہم اجازت تھی کہ وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کریں۔ انہیں اپنے احساسات کے اظہار پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی، مگر ہم لڑکیوں کو، بلکہ ویسا ہی دل رکھنے کے باوجود، ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی۔
ملی جلی اقدار
میں کبھی نہیں بھول سکتی کہ میں 20 برس کی تھی اور ایک بار سائیکل چلانے پر مجھے لوگوں کی جانب سے کیسے جملے اور کیسی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر میں لڑکا ہوتی، تو ایسا کچھ نہ ہوتا۔ مگر سائیکل چلانا ہمارے ہاں بالغ لڑکیوں کے لیے طے شدہ حد سے آگے کی بات تھی۔
سائیکل، ظاہر ہے صرف ایک ابتدا تھی۔ کسی خاتون کے لیے اکیلے رہنا، اکیلے سفر کرنا اور حتیٰ کے رات گئے اکیلے باہر نکلنا، ممنوع تھا۔ بہت سی جگہوں پر انہیں اپنے مرد دوستوں کے ساتھ جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی اور ان کے سیکنڈری اسکول جنس کی بنیاد پر قائم ہوتے تھے۔
جرمنی کی رہائشی کے طور پر، مجھے اس معاشرے کے لیے بے حد احترام ہے، خصوصاﹰ جب میں دیکھتی ہوں کہ صرف چانسلر انگیلا میرکل ہی نہیں بہت سی دیگر خواتین یہاں اہم سیاسی عہدوں پر ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ شامی پارلیمان یا وزارتوں میں کوئی خاتون ہو۔
برکینی اور ہیڈاسکارف پر بحث
جب یورپ میں برکینی تنازعہ پیدا ہوا، جہاں بعض مقامات پر خواتین کے مکمل سوئمنگ سوٹ یعنی وہ لباس جو عموماﹰ مسلم خواتین سوئمنگ کے لیے پہنتی ہیں، پر پابندی کے مطالبات کیے جانے لگے، تو مجھے اپنی شامی دوست کی کہانی یاد آنے لگی۔
جرمنی میں اسے حجاب کرنے کی وجہ سے کئی مزاحیہ قسم کے جملے سننے کو ملے، جیسے کیا حجاب کے نیچے واقعی اس کے بال ہیں یا جیسے وہ نہاتی بھی اسکارف کے ساتھ ہے؟
بعض نے اسے کہا کہ جرمنی میں چوں کہ وہ آزاد ہے، اس لیے اسے یہ حجاب اتار پھینکنا چاہیے۔ اس کے لیے ان لوگوں کو یہ بتانا نہایت مشکل تھا کہ حجاب اس کا بے انتہا ذاتی معاملہ ہے اور اسے کسی نے ایسا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ گو کے اس کے بال دکھائی نہیں دیتے، مگر اس کا دماغ کھلا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور اپنے خواب تعبیر کرے۔
مگر بہت سے جرمن اور یورپی افراد کے لیے شاید، حجاب استحصال ہی کی علامت ہے۔
میں حجاب کیوں نہیں پہنتیں؟
جرمنی میں عموماﹰ مجھے کئی مرتبہ یہ بتانا پڑا۔ اپنی دوست کے برخلاف میں اسکارف نہیں پہنتی۔ میں شامی علاقے سلامیہ میں میں پلی بڑھی ہوں، جہاں خواتین کے لیے ہیڈاسکارف پہننے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ مگر جب میں دیگر شامی علاقوں مثلاﹰ حما وغیرہ جاتی تھی، تو وہاں کی روایتوں کا احترام کرتی تھی۔
بعض خواتین اپنے مذہبی اعتقاد کی وجہ سے حجاب لیتی ہیں اور بعض یہ طے کرتی ہیں کہ انہیں حجاب نہیں استعمال کرنا۔ مگر میرے خیال میں حجاب کسی خاتون کا ذاتی انتخاب ہے اور اسے ایک پدرسری معاشرے کی استحصال کی علامت نہیں سمجھنا چاہیے۔
ہمارے بہت سے دیگر حقوق اور آزادیاں بااختیار مردوں کے ہاتھوں محدود ہو چکی ہیں اور گو کہ میرے آبائی علاقے میں خواتین کے بال کھلے چھوڑنے یا چھپانے پر کوئی قدغن نہیں تھی، مگر ہماری دیگر آزادیاں محدود تھیں۔
میں ہار نہیں مانوں گی
جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں، تو مجھے یہ دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ شامی معاشرے میں بہت معمولی ہی سہی مگر کسی حد تک پیش رفت ہو رہی ہے۔ گو کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور مردوں کو اب بھی معاشرے میں برتری حاصل ہے مگر میرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ شامی خواتین اپنے حقوق سے باخبر ہوتی جا رہی ہیں، بالکل میری کولون کو پسند کرنے والی دوست کی طرح۔
مجھے امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین اپنی آواز بلند کریں گی اور فقط آزادی کے معنی جانیں گی ہی نہیں بلکہ آزادی سے جیئں گی بھی۔
میری شام والی دوست اب شام چھوڑ کر کسی اور ملک جانے کا سوچ رہی ہے، تاکہ اپنے بچوں کو شام میں جاری جنگ سے تحفظ دے سکے، مگر اس کا سابقہ شوہر اور بچوں کا باپ اسے اس کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ پھر بھی اس نے کوشش کرنا ترک نہیں کی۔ وہ مجھے کہتی ہے، ’’مجھے شاید مشکلات کا سامنا ہو، مگر میں ہار نہیں مانوں گی۔‘‘
میں اس کا دکھ سمجھ سکتی ہوں، کیوں کہ مجھے خود شام میں بے شمار مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اس کی واحد وجہ میری جنس تھی۔ جرمنی میں میں خود کو محفوظ اورآزاد سمجھتی ہوں کہ میں وہ سب کچھ کروں جو مجھے پسند ہو۔ اور ہاں میں نے کچھ دن کے لیے سائیکل چلانا ترک کر دی ہے۔ یہ مختصر وقفہ اس لیے ہے کہ میں جو حال ہی میں سائیکل سے گری تھی، تو ابھی خراشیں پوری طرح بھری نہیں۔ جوں ہی یہ خراشیں ٹھیک ہو جائیں گی، میں پھر سائیکل دوڑاتی نظر آؤں گی۔
رِیم دعوہ شامی علاقے سلامیہ میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔ انہوں نے سن 2012 میں انٹرنیشنل میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور اب وہ بہ طور صحافی ڈی ڈبلیو کے شعبہ عربی سے وابستہ ہیں۔