کب ایک ماں بچوں کو اسمگلرز کے حوالے کرنے پر راضی ہوتی ہے؟
22 نومبر 2015سلمیٰ کا تعلق شام سے ہے اور اس کا شوہر ایک فلسطینی ہے، جس کے پاس لبنان کا پاسپورٹ ہے اور جو لیبیا میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہے۔ سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک لیبیا سنبھل نہیں سکا ہے۔ ملک افراتفری کا شکار ہے، مختلف ملیشیا دندناتی پھرتی ہیں، اور یہاں کس کی حکومت ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔
اگر لیبیا میں یہ صورت حال نہ ہوتی تو کیا یہ بیالیس سالہ، دبلی پتلی سلمیٰ اپنے چھ بچوں کو یورپ بھیجنے کے بارے میں سوچتی؟ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شام خود چار برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، اور وہاں بھی کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔
تو سلمیٰ نے اپنے بچوں کو انسانی اسمگلرز کے حوالے کرنے کا کیوں سوچا؟
سلمیٰ کا شوہر انتہائی بیمار ہے، اور اب اسی کو گھر چلانا ہے۔ طرابلس میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے والی سلمیٰ اپنی کہانی رو رو کر سناتی ہے۔
سلمیٰ کام کی تلاش میں انیس سو نوے کی دہائی میں لیبیا آئی تھی۔ یہاں اس کی ملاقات سلیم سے ہوئی جس سے اس نے شادی کی اور ان کے چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ ان کی عمریں سات اور بیس برس کے درمیان ہیں اور یہ سب لیبیا ہی میں پیدا ہوئے۔
سلمیٰ کے سترہ سالہ بیٹے ایمان کو دو مرتبہ غنڈوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اس کے بعد ایمان نے والدہ سے التجاء کی کہ کسی طرح اسے یورپ بھیج دیا جائے۔ والدہ نے اس کی بات مان لی۔
سلمیٰ کہتی ہے: ’’میں نے گزشتہ برس ستمبر میں کسی طرح ایک ہزار ڈالر جمع کیے اور فیصلہ کیا کہ یہ خطرہ مول لینا چاہیے۔ اب وہ یورپ میں ہے، ایک اسکول میں پڑھتا ہے اور ایک فلاحی ادارہ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔‘‘
دو ماہ بعد سلمیٰ نے اپنے دوسرے بیٹے ہادی کو بھی یورپ بھیج دیا۔ ’’وہ طرابلس کے مغربی ساحلی علاقے سے اٹلی کی جانب روانہ ہوا، جہاں اطالوی کوسٹ گارڈز نے اسے پکڑ کر سسیلی پہنچا دیا۔ وہاں سے وہ اطالوی شہر ملان پہنچا لور بعد ازاں جرمنی۔‘‘
سلمیٰ کا کہنا ہے کہ لیبیا کی صورت حال اتنی مخدوش ہے کہ وہ ہر طرح کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوئی۔