کرتارپور صاحب معاملہ: بھارت کا الزام، پاکستان کی تردید
6 نومبر 2020پاکستان میں واقع سکھ مذہب کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کرتارپور صاحب گرودوارہ کا انتظام وانصرام سکھوں کے بجائے ایک 'غیر سکھ‘ تنظیم کے سپرد کیے جانے کی اطلاعات کے بعد بھارت میں حکومت، حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور سکھوں کی متعدد تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ لیکن پاکستان نے ان خبروں کو بھارتی حکومت کی جانب سے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا اور 'امن راہداری‘ کے حوالے سے اقدامات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کرتارپور صاحب گرودوارہ کا نظم نسق'غیر سکھ‘ تنظیم کے سپرد کیے جانے کے حکومت پاکستان کے فیصلے کو سکھوں کے مذہبی جذبات کے منافی قرار دیتے ہوئے، اسے فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
'فیصلہ قابل مذمت‘
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے ایک سخت بیان جاری کرکے کہا”ہم نے ان رپورٹوں کو دیکھا ہے جن کے مطابق پاکستان میں مقدس گرودوارہ کرتارپور صاحب کا انتظام اور دیکھ ریکھ کا کام اقلیتی سکھ برادری کی تنظیم پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی سے لے کر ایک غیر سکھ تنظیم متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے ہاتھوں میں دیے جارہے ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا”پاکستان کا یہ یک طرفہ فیصلہ قابل مذمت ہے۔ ایسے اقدام پاکستانی حکومت کے مذہبی اقلیتی برداری کے حقوق و بہبود کی حفاظت کے تئیں بلند بانگ دعووں کی اصلیت ظاہر کرتے ہیں۔"
بھارت نے پاکستان سے اپیل کی کہ وہ سکھ فرقے کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے من مانے فیصلے کو تبدیل کرے۔”پاکستان کا یہ یک طرفہ فیصلہ کرتارپور صاحب کوریڈور کو کھولنے کے جذبے اور سکھ طبقے کے مذہبی جذبات کے خلاف ہے۔ گرودوارہ کرتارپور صاحب کی انتظامیہ سے متعلق معاملات کا انتظام و انصرام کرنے کا حق سکھوں کا ہے۔"
'پاکستان سکھوں کو اپنا نہیں سمجھتا‘
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی حکومت پاکستان کے مبینہ فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے سکھوں کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش قرار دیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور ترجمان ڈاکٹر سدھانشو ترویدی نے کہا ”گرونانک جی کی جائے پیدائش اور کرتارپور صاحب پاکستان میں ہے حتی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دارالحکومت لاہور بھی پاکستان میں ہے لیکن اس کے باوجود سکھ پنت پاکستانی ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان اسے اپنا سمجھتا ہے۔ سکھ مذہب ہندوستانی ثقافت کا حصہ ہے، ہندوازم کا حصہ ہے۔"
بی جے پی کے ایک اور سینئر لیڈر رکن پارلیمان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے ٹوئٹ کرکے کہا”کیا پاکستان کے اسلامی ڈکٹیٹرشپ نے کرتارپور گرونانک گرودوارہ کا مینجمنٹ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے؟ تین سال قبل میں نے کہا تھا کہ بھارتی فوج کو سرحد پار کرکے گردوارہ کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہیے۔ لیکن کانگریس کی قیادت والی پنجاب حکومت کو صرف سکھوں کے لیے ویزا اور انہیں زیارت پر بھیجنے میں دلچسپی ہے۔"
مودی سے مداخلت کی اپیل
بھارت میں سکھوں کی تنظیموں نے بھی کرتارپور صاحب گرودوارہ کے حوالے سے پاکستان کے مبینہ فیصلے پر تشویش کااظہار کیا ہے۔
دہلی سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر منجندر سنگھ سرسا نے گردوارے کا نظم و نسق متروکہ وقف املاک بورڈ کو سونپے کے فیصلے کو بدقسمتی قرار دیا۔ سرسا نے بتایا کہ انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کو اس حوالے سے ایک خط لکھ کرحکومت پاکستان کے سامنے یہ معاملہ اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب کے سابق نائب وزیر اعلی سکھ بیر سنگھ بادل اور سابق وفاقی وزیر ہرسمرت کور بادل نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
دوسری طرف دہلی شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق صدر پرم جیت سنگھ سرنا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے پاکستانی میں سکھ تنظیموں سے بات کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کرتارپور صاحب گرودوارہ کے صرف ڈیولپمنٹ کا کام بورڈ کے سپرد کیا گیا ہے۔ سرنا کا تاہم کہنا تھا کہ اگر اس نئے بورڈ میں سکھوں کو بھی نمائندگی دیتی ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
پاکستان کی تردید
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں بھارت کے الزامات کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس 'بے بنیاد پروپیگنڈے‘ کو مسترد کردیا ہے۔
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان چوہدری زاہد حفیظ نے ایک بیان میں کہا کہ بھا رتی حکومت کی جانب سے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا صرف‘امن راہداری'سے متعلق اقدام کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروپیگنڈے کا مقصد بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر سے توجہ ہٹانا ہے۔
زاہد حفیظ چوہدری کا مزید کہنا تھا نے کہ اس سلسلے میں پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی (پی ایس جی پی سی) کی سہولت کے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے تحت پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) تشکیل دیا گیا ہے۔ اور گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے معاملات کو پی ایس جی پی سی سے پی ایم یو میں منتقل کرنے سے متعلق بھارتی پروپیگنڈا نہ صرف حقائق کے منافی ہے بلکہ اس کا مقصد بھارت میں ہندوتوا سے چلنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے ذریعے مذہبی انتشار پیدا کرنا ہے۔
پاکستان میں گرودوارے
پاکستان میں سکھوں کے176سے زائد گرودوارے اور مذہبی اہمیت کے حامل تاریخی مقامات ہیں۔ پچھلے 73 برسوں میں اب تک تقریباً 20 گرودوارے کھولے گئے ہیں۔ یہ تمام گرودوارے پاکستان کے ای ٹی پی بی کے کنٹرول میں ہیں۔
ای ٹی پی بی ان تمام گرودواروں کی عمارتوں کی مرمت اور رکھ رکھاو کا کام دیکھتا ہے جو زیر استعمال ہیں یا بند پڑے ہیں۔ جب کہ ان گرودواروں میں مذہبی امور کی انجام دہی کا پورا نظم پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی (پی ایس جی پی سی) کے پاس ہے۔ پی ایس جی پی سی ہی عقیدت مندوں سے ان گرودواروں کو موصول ہونے والے عطیات کا حساب کتاب رکھتی ہے۔
پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر ستونت سنگھ کا کہنا ہے کہ”پی ایم یو کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ حکوت پاکستان نے گرودوارہ دربار صاحب کمپلکس کی توسیع اور کرتارپور کوریڈور کے لیے 800 ایکڑ سے زیادہ زمین ایکوائر کیے ہیں اس لیے چار کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے پر وسیع ان تمام عمارتوں اور ڈھانچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک علیحدہ ادارے کی ضرورت تھی۔ پی ایم یو کے قیام سے گرودوارہ دربار صاحب کے مذہبی امور میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوگی۔ اور مذہبی امور کے انتظام و انصرام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔"