کرُد کنٹرول والے علاقوں پر پہلی بار شامی طیاروں کی بمباری
19 اگست 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شامی طیاروں کی اس بمباری کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے۔ شامی کُرد ملیشیا YPG اور شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اس حملے کی تصدیق کر دی ہے۔
طاقتور سمجھی جانے والی YPG کُرد ملیشیا شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف امریکی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ میں ایک اہم پارٹنر ہے۔ اس حملے کے بعد اس ملیشیا کی طرف سے اس بمباری کو ’صریح جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب وائی پی جی بھی ’خاموش نہیں رہے گی‘۔ اس حملے کے بارے میں شامی حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
پیپلز پروٹیکشن یونٹ یا YPG کے ترجمان ریدر خلیل کی طرف سے بتایا گیا کہ ان فضائی حملوں کا نشانہ شہر کے کُرد علاقے بنے، جو زیادہ تر کُرد گروپوں کے کنٹرول میں ہیں۔ اس کے علاوہ کُرد سکیورٹی فورسز کی پوزیشنوں پر بھی حملے کیے گئے۔ روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے خلیل نے مزید کہا، ’’اس حملے میں لوگ شہید ہوئے اور زخمی ہوئے۔‘‘
حکومتی فورسز الحسکہ شہر میں کُرد علاقوں پر توپ خانے سے گولہ باری بھی کر رہی تھیں اور شہر میں شدید جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ YPG کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہمارے لوگوں کے خون سے رنگے ہر ہاتھ کا تمام ممکنہ اور دستیاب ذرائع سے محاسبہ کیا جائے گا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق شامی خانہ جنگی کے دوران حکومتی فورسز اور YPG نے زیادہ تر ایک دوسرے کو اپنے اپنے حال پر ہی چھوڑے رکھا تھا اور اس دوران اس گروپ نے حکومتی بالا دستی کمزور پڑنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے شمالی حصے کے زیادہ تر علاقے پر اپنی خود مختاری قائم کر لی تھی۔
شامی حکومت جس کی طرف سے صدر بشارالاسد کی انتظامیہ کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، صوبے الحسکہ کے شہروں القامشلی اور الحسکہ دونوں کے بعض حصوں پر اب بھی کنٹرول رکھتی ہے۔
شام میں موجود امدادی کارکنوں کی مدد سے شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق حکومتی فورسز کے طیاروں نے الحسکہ شہر کے شمال مشرقی اور شمال مغربی حصوں میں کُرد سکیورٹی فورسز کی پوزیشنوں کو نشانہ بنایا۔ اس تنظیم کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ الحسکہ شہر کے گرد و نواح میں کئی مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 13 افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔