کشمیر: لاک ڈاؤن کے دوران کشیدگی، فون اور انٹرنیٹ معطل
7 مئی 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ میں عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو کی فورسز کے ساتھ تصادم میں موت کے بعد لوگوں کے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی خبریں ہیں۔ نائیکو کی ہلاکت کی خبر آتے ہی ان کے آبائی گاؤں بیگ پورہ اور گلزار پورہ کے علاقوں میں بہت سے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا۔ بھارتی فورسز نے جوابی کاررائی کی جس میں ایک شخص ہلاک اور درجن بھر سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
پلوامہ کے ایک مقامی صحافی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ ہلاک ہونے والے 32 سالہ جہانگیر یوسف کی گردن میں گولی لگی تھی جو موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ ان کا تعلق اٹھمولا گاؤں سے تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب پولیس اب عام شہریوں کی لاشیں بھی اہل خانہ کے حوالے نہیں کرتی اس لیے مقامی لوگ جہانگیر کی لاش خود لے گئے اور اسے دفن کر دیا۔ مقامی پولیس حکام کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
ایک دیگر مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ جمعرات سات مئی کی صبح بھی لوگ احتجاج کے لیے نکلے تھے تاہم سکیورٹی فورسز نے احتجاج کو دبا دیا۔ ان کے مطابق اس واقعے کے بعد سے ''جنوبی کشمیر میں زبردست کشیدگی کا ماحول ہے لیکن چونکہ تمام مواصلاتی نظام پر پابندی عائد ہے اس لیے اصل میں کہاں کیا ہورہا ہے کچھ پتہ نہیں چل پا رہا ہے۔''
کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے ریاض نائیکو کی موت کی خبر آتے ہی پہلے انٹرنٹ سروسز کو معطل کر دیا تھا پھر اس کے بعد فون سروسز کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ وادی کشمیر کے دس اضلاع میں اب صرف سرکاری کمپنی بی ایس این ایل کے پوسٹ پیڈ فون ہی کام کررہے ہیں اور اس کے علاوہ رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
ایک مقامی صحافی نے موجودہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن پہلے ہی سے تھا اور اب جگہ جگہ فوج اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی سے تقریباً اسی طرح کا ماحول ہے جیسا گزشتہ برس اگست میں تھا جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کرفیو سمیت سخت ترین بندشیں نافذ کر دی تھیں۔
بھارتی میڈیا میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کے تعلق سے خبریں ندارد ہیں۔ عام طور پر عسکریت پسندوں کی ہلاکت یا سکیورٹی فورسز کے آپریشن سے متعلق ٹی وی چینلوں پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں مواصلاتی نظام کو یکسر معطل کرنے سے متعلق بھارتی میڈیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بھارت کی بیشتر ویب سائٹ اور ٹی وی چینل اس حوالے سے پوری طرح خاموش ہیں۔
مودی کی حکومت نے گزشتہ برس کشمیر کو آئینی طور پر حاصل خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے اور ریاستی درجہ ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ بھارت نے کشمیر کے تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ لگا دیا تھا۔ فون، موبائل اور انٹرننیٹ سروسز کو معطل کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تقریبا تمام علاقوں میں کرفیو جیسی بندیشیں عائد کر دی گئی تھیں۔