پانچ ستمبر 2014ء کو اپنے آبائی شہر سوپور سے دارالحکومت سرینگر کے ہوائی اڈے تک پہنچنا ایک ایسا دردناک تجربہ تھا، جو میں کبھی بھول نہیں پاؤں گی۔ میرے بھائی امریکہ سے آ رہے تھے اور مجھے ان کے استقبال اور پھر اپنے ہمراہ گھر لانے کا کام سونپا گیا تھا۔بے موسمی بارشیں جاری تھیں۔ کشمیر میں بھارت کے دیگر حصوں کی طرح مون سون کا کوئی وقت نہیں ہوتا اور موسم خزاں کے علاوہ پورے سال بارشیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔
سرینگر کے نواح میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سڑکیں تو دریا بنی ہوئی تھیں۔ جس بھی گلی یا محلے سے گاڑی نکالنے کی کوشش کرتے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ جیسے پوری دنیا کا پانی اسی گلی میں امنڈ آیا ہو۔
چھ ستمبر تک صورتحال ڈرامائی طور پر بگڑ چکی تھی۔غیر معمولی بارش کی وجہ سے آنے والے سیلابی ریلے نے جنوبی کشمیر کے میدانی اور سرینگر کے نشیبی علاقے مکمل طور پر زیر آب کر دیے تھے۔
اگرچہ سوپور سیلاب کے بدترین قہر سے بچ گیا تھا لیکن شمالی کشمیر میں دریائے جہلم کے کناروں پر تجارتی اور نجی عمارتوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سیلاب نے دہائیوں کی غیر منصوبہ بند تعمیر و ترقی کا پول کھول دی تھی۔
پانچ ستمبر کی رات لگتا تھا کہ بس یہ زندگی کی آخری رات ہے۔ سیلاب کے حوالے سے کوئی سرکاری الرٹ یا انخلا کا حکم جاری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس صرف افواہیں ہی تھیں۔ صبح ہونے تک ہمارے فون نے بھی کام کرنا بند کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ہم سری نگر میں اپنی خالہ کی فیملی اور دوستوں سے کٹ گئے۔
غیر یقینی صورتحال اور مواصلات کی عدم موجودگی سے بس لگتا تھا کہ قیامت آ چکی ہے۔
اس سیلاب کی ذمہ دار بے موسم کی بارش تو ہو سکتی ہے مگر خطے میں غیر منصوبہ بند ترقی اور ندی نالوں کو بند کر کے ان پر تجاوزات کی تعمیر اس کی سب سے بڑی وجہ تھی۔
آج اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں اور ابھی حال ہی میں مجھے اس راستے پر دوبارہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ ایک دہائی بعد جب میں اسی سڑک سے گزر رہی تھی، تو لگا کہ ہم نے ایک دہائی قبل آنے والی قدرتی آفت سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ تجاوزات کی تعمیرات اور ندی نالوں کو بند کرنے کا کام پہلے سے زیادہ زور و شور سے جاری تھا۔
حکومت کی جانب سے دریائے جہلم کو صاف اور گہرا کرنے کے وعدے ابھی تک ایفا نہیں ہو سکے۔ نہ حکومت اور نہ ہی عوام کے مزاج میں کوئی بدلاؤ آیا ہے۔
دس سال قبل انہی دنوں اسمبلی کے انتخابات کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ اس لیے وعدوں کی بہار تھی۔ سبھی سیلاب کی روک تھام کے حوالے سے وعدے کر رہے تھے۔انتخابات کے بعد حکومت کی طرف سے سیلاب سے نمٹنے کے لیے دو منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا لیکن پیش رفت نہایت ہی مایوس کن رہی۔ 2021ء کی کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ان بنیادی مسائل کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ طے شدہ ڈریجنگ (پانی کی تہہ میں جمع مٹی اور کیچڑ کی مشین سے صفائی) کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی مکمل ہوا ہے اور سیلاب کو روکنے کے انتظام کی کوششوں میں سنگین لاپرواہی برتی گئی ہے۔نا ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا اور نا ہی عوامی تربیت یا کوئی متبادل نظام ترتیب دیا گیا۔
2014ء کے سیلاب کے بعد ہر گھر میں سیلاب کی تاریخ پر بحث ہوتی تھی اور اس کے بعد مجھے آخرکار اس بات کا جواب مل گیا کہ بارہمولہ میں دریائے جہلم میں ہمیشہ سے ڈریج کیوں اکھٹا ہوا ہے۔ چونکہ کشمیر میں سیلاب کی تاریخ رہی ہے اسی لیے بارہمولا میں 1960ء میں آخری مرتبہ ڈریجنگ کی گئی تھی۔
اس علاقے میں چھوڑی اور بڑی ندیوں اور ویٹ لینڈ یا دلدلی زمین کا ایک جال بچھا ہوا تھا، جن میں دریائے جہلم کا اضافی پانی جمع ہو جاتا تھا۔ اب ان ویٹ لینڈز پر عالیشان عمارتیں اور شاپنگ مال کھڑے ہیں۔ ندی نالے گندے پانی کے ڈرین بنے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ہی بلاک رہتے ہیں۔
کشمیر میں 1970ء کی دہائی میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے فلڈ چینل کا ایک موثر منصوبہ بنایا گیا تھا اور جس کے بعد ویٹ لینڈز اور سیلابی علاقوں کو بحال کیا گیا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہی نہروں اور جھیلوں پر توجہ دی ہی نہیں گئی۔ المیہ تو یہ ہے کہ تجاوزات اور ندی نالوں کا یہ جال عوامی حکومتوں کے دور میں بچھایا گیا ہے۔ حکومتوں نے اپنے کارکنوں کو نوزانے کے لیے ہی تو ان علاقوں میں تجاوزات کھڑے کرنے کی اجازت دی تھی۔
سرینگر کو مشرق کا وینس اس لیے کہتے تھے کیونکہ وینس کی طرح یہاں بھی آبی ٹرانسپورٹ نقل و حمل کا اہم ذریعہ تھا۔ یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ ایک عوامی حکومت نے ہی سری نگر کے وسط سے گزرتے ہوئے جھیل ڈل اور دریائے جہلم کو ملانے والے نالہ مار کو تقسیم کر کے پکی سڑک بنا دی؟ صرف اس وجہ سے کیونکہ ایک وزیر اعلیٰ کی گاڑی ایک بار ٹریفک جام میں پھنس گئی تھی اور وہ علاقہ ان کے مخالفین کا تھا۔
حالانکہ خطے میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں اور لوگ امید کرتے کہ نئی حکومت موسمیاتی بحران اور سیلاب کے سنگین مسئلے کو سمجھتے ہوئے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نظر میں رکھتے ہوئے تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے گی۔ لیکن کشمیر کی سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لگتا نہیں ہے کہ گورننس کے معاملات ان انتخابات کا حصہ ہیں۔
خیر لوگوں کے پاس اب بھی جاگنے کا وقت ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوامی تربیت اور آگاہی مہم بہت ضروری ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں اگر کوئی عام آدمی متاثر ہوتا ہے، تو اس کی داد رسی بھی ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی اس کے روزگار اور رہنے کے لیے متبادل بھی تیار ہونا چاہیے۔ تبھی ان چلینجز کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔