کشمیر میں حالات ’ہمیشہ ہی نارمل تھے، اب بھی ہیں‘: امیت شاہ
20 نومبر 2019بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے بدھ بیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا جو اعلان مودی حکومت نے پانچ اگست کو کیا تھا، اس کے بعد سے وہاں سکیورٹی لاک ڈاؤن اب بھی کافی حد تک برقرار ہے اور اس خطے میں انٹرنیٹ رابطے بھی تاحال زیادہ تر منقطع ہیں۔
لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست، حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور ملکی وزیر داخلہ امیت شاہ نے نئی دہلی میں بھارتی پارلیمان کے راجیہ سبھا کہلانے والے ایوان بالا کو آج بتایا کہ کشمیر میں تو حالات اب بھی 'مکمل طور پر معمول پر‘ ہیں۔
امیت شاہ نے کہا، ''کشمیر میں پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، مائع قدرتی گیس اور چاول کی دستیابی کی سطح تسلی بخش ہے اور وہاں صورت حال تو قطعی تو پر نارمل ہے۔‘‘
اس سلسلے میں امیت شاہ کے بیان کا یہ حصہ بھی اہم تھا، ''وہاں تو صورت حال ہمیشہ ہی نارمل تھی۔ دنیا میں کشمیر سے متعلق کئی طرح کی باتیں پھیلائی گئی تھیں۔ کشمیر میں حالات پوری طرح معمول کے مطابق ہیں۔‘‘
مودی حکومت نے اس سال پانچ اگست کو بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر اکتیس اکتوبر کو عمل درآمد بھی ہو گیا تھا۔ اب اس متنازعہ خطے کو لداخ اور جموں کشمیر نام کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان دونوں کو ہی بھارت کے یونین علاقے بنایا جا چکا ہے۔
سینکڑوں کشمیری تاحال زیر حراست
پانچ اگست کے حکومتی اقدامات کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جن ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، ان میں سے سینکڑوں ساڑھے تین ماہ گزرنے کے بعد بھی جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے بہت سے کشمیری سیاسی کارکن کشمیر سے باہر بھارت کے مختلف شہروں کی جیلوں میں بند ہیں اور ان کے خلاف کوئی باقاعدہ فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی۔
اس بارے میں داخلہ امور کے وزیر مملکت جی کشن ریڈی نے آج بدھ کے روز بتایا کہ کشمیر میں چار اگست کی رات سے لے کر اب تک کل ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے بہت بڑی اکثریت کو دوبارہ رہا کیا جا چکا ہے، اور ''ابھی تک جیلوں میں بند ایسے کشمیریوں کی تعداد 609 بنتی ہے۔‘‘
م م / ع ح (اے ایف پی)