کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جائے، پاکستانی درخواست
14 اگست 2019پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق یہ خط وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل کی صدر ژوانا ورونَیکا (Joanna Wronecka) کے نام تحریر کیا ہے۔ پاکستان اس اجلاس میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کو زیربحث لانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسلام آباد نے اس میٹنگ کی درخواست بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی دستوری حیثیت کے بدلے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں کی ہے۔
سکیورٹی کونسل کے نام لکھے گئے خط میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ موجودہ حساس صورت حال میں پاکستان کوئی اشتعال انگیزی نہیں کرے گا لیکن پاکستان کے اس ضبط و تحمل کو بھارت اس کی کوئی کمزوری خیال نہ کرے۔ اس خط کے مندرجات کو نیوز ایجنسی روئٹرز نے دیکھ کر رپورٹ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے مزید تحریر کیا ہے، ''اگر بھارت طاقت کے استعمال کا انتخاب کرتا ہے تو پھر پاکستان بھی مجبور ہو جائے گا کہ وہ ایسے بھارتی اقدامات کا مناسب جواب اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ دے اور یہ اس کے اپنے تحفظ کے تناظر میں ہو گا۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ کشمیر کئی دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ اور منقسم خطہ ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ پندرہ رکنی سلامتی کونسل اس پاکستانی خط پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے گی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ میٹنگ طلب کرنے کے معاملے پر اُسے چین کی حمایت حاصل ہے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آیا سلامتی کونسل کا کوئی مستقل رکن بھی کشمیر کے معاملے پر اجلاس طلب کرنے کی کوئی باقاعدہ درخواست کرتا ہے۔
رواں ماہ کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی صدارت پولینڈ کے پاس ہے۔ پولستانی وزیر خارجہ یاسیک کاپوٹوویچا (Jacek Czaputowicz) نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خط کونسل کو موصول ہو گیا ہے۔ کاپوٹوویچا نے مزید کہا کہ اس خط کے مندرجات پر بحث کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اندرونی صورت حال بدستور نازک ہے۔ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ پندرہ اگست کو ملکی یوم آزادی کے بعد سے کرفیو میں نرمی پیدا کر دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کرفیو میں نرمی کے باوجود ٹیلی فون رابطے منقطع رہیں گے اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال نہیں کی جائے گی۔
ریاستی گورنر نے بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ مواصلاتی رابطے بدستور منقطع رکھے جائیں گے کیونکہ حکومت 'دشمن قوتوں‘ کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی۔ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے خصوصی دستوری تشخص کو نریندر مودی حکومت نے پانچ اگست کو ختم کر دیا تھا اور اُسی دن سے وادی میں نقل و حرکت اور مواصلاتی رابطوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔
ع ح، م م ⁄ روئٹرز، اے ایف پی