کشمیر: جعلی تصادم میں معصوموں کی ہلاکتیں، تفتیش کا وعدہ
11 اگست 2020بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ضلع راجوری کے تین خاندانوں نے پولیس تھانے میں ایک شکایت درج کروائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے 18 جولائی کو جن تین افراد کو مبینہ طور پر تصادم میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا وہ در اصل مزدور تھے اور ان کا عسکریت پسندی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ان اطلاعات کے بعد بھارتی فوج نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
بھارتی فورسز نے18 جولائی کو جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے ایک گاؤں امشی پورہ میں تین شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ لیکن فوج نے اس کے علاوہ کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ آیا ان عسکریت پسندوں کا تعلق کس تنظیم سے تھا یا پھر وہ کہاں کے رہنے والے تھے۔ بھارتی فوج نے انہیں ''نا معلوم عسکریت پسند'' قرار دیا تھا۔ کشمیر پولیس نے بھی یہ کہہ کر اس تصادم سے اپنے آپ کو الگ رکھا تھا کہ یہ فوج کا اپنا ان پٹ ہے۔
اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ضلع راجوری کے جو تین مزدور 17 جولائی سے لا پتہ تھے دراصل وہی بھارتی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔
سری نگر میں فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے اس سلسلے میں ایک مختصر سا بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ''اس آپریشن کے دوران جو تین شدت پسند مارے گئے تھے ان کی شناخت نہیں ہو پائی تھی اور اصول و ضوابط کے مطابق ان کی لاشوں کو دفنا دیا گیا تھا۔ فوج اس کی تفتیش کر رہی ہے۔''
ہلاک ہونے والے تین مزدروں میں سے ایک کی عمر صرف 16 برس تھی۔ جن کا نام ابراہیم احمد بتایا گیا ہے۔ دوسرے لڑکے کا نام امتیاز احمد ہے جن کی عمر 20 برس اور ہلاک ہونے والے تیسرے شخص کا نام محمد ابرار ہے جو 25 برس کے تھے۔ ابراہیم اور امتیاز کا تعلق دھرساکری گاؤں سے ہے جبکہ ابرار کا تعلق ترکاسی سے ہے۔
تینوں کا تعلق راجوری کی تحصیل کوتراناکا سے بتایا جاتا ہے۔ متاثرین کے اہل خانہ نے اس سلسلے میں اپنی شکایت میں کہا ہے کہ یہ تینوں ایک ساتھ کشمیر میں کام کی تلاش میں گئے تھے اور 17 جولائی سے اسی علاقے سے لا پتہ تھے جہاں بھارتی فورسز نے عسکری کارروائی کی تھی۔
بھارتی فورسز نے ان لڑکوں کو شوپیاں میں ہلاک کیا تھا جو راجوری سے تقریبا 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ بھارتی فوج نے اپنے مبینہ تصادم کے بعد ان لڑکوں کی جو تصویریں جاری کی تھیں اس کی بنیاد پر ان کے اہل خانہ نے ان کی شناخت بھی کر لی ہے۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ تینوں 16 جولائی کو گھر سے نکلے تھے اور 17 جولائی کے بعد سے ہی وہ لا پتہ تھے۔ ابرار کے ایک کزن محمد سلیم نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ انہیں یہ محسوس ہوا کہ شاید کووڈ 19 کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھا گیا ہوگا، اور چونکہ راجوری میں باہر سے آنے والوں کو 21 دن تک قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے اس لیے وہ اس کا انتظار کرتے رہے۔
اس دوران ان تینوں کے اہل خانہ کو کسی نے بتایا کہ شوپیاں میں اٹھارہ جولائی کو بھارتی فوج نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس خبر کے بعد ہی جب سوشل میڈیا پر ان افراد کی لاشوں کی تصویریں وائرل ہوئیں تو والدین نے اپنے بیٹوں کو پہچان لیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکام ان کے بیٹوں کی لاشوں کو ان کے حوالے کریں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی سیاسی جماعتوں نے اس واقعے کی منصفانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اہل خانہ کو انصاف مل سکے۔ تاہم کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کا فرضی تصادم میں عام شہریوں کو ہلاک کرنے کا چلن کافی پرانا ہے۔
کشمیر ہائی کورٹ میں اس طرح کے کئی کیسز کی پیروی کرنے والے وکیل اور سرکردہ انسانی حقوق کے کارکن امروز پرویز کہتے ہیں کہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز ایسا برسوں سے کرتے آئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''سکیورٹی فورسز اس طرح کی کارروائیوں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے آپریشن بہت کارآمد ہیں، اس کے لیے انہیں اعزاز و انعام سے نوازا جاتا ہے اور ان کو ترقی بھی ملتی ہے۔ اور چونکہ کشمیر میں فوج کسی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اس لیے یہ سلسلہ جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہیگا۔''
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا رویہ بھی اس بارے میں بہت افسوس ناک ہے۔ '' عدالتیں فرضی تصادم کے مرتکب اور قصورواروں سے جوابدہی طے کرنے، انہیں سزا دینے یہاں تک ان کی شناخت کے عمل میں ناکام رہی ہیں۔ کشمیر میں انصاف کی کرسی پر بیٹھے جج انسانی زندگی، ان کے حقوق، آزادی اور وقار کی پامالی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، جو ان کا سب سے اہم فریضہ تھا۔