’کشمیریوں کا عدم اتحاد کشمیر کاز کی ناکامی کی وجہ بن رہا ہے‘
6 اگست 2020
بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد کی طرف سے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوششوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل تاہم مستقبل قریب میں نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ موجودہ صورتحال پر ڈی ڈبلیو نے یورپ میں کشمیریوں کے حقوق کے لیے سرگرم اہم شخصیات کے ساتھ بات چیت کی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بُدھ کے روز پاکستان کی درخواست پر کشمیر کے تنازعہ پر بحث کی۔ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے ایک برس قبل جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی خطے کی نیم خودمختاری کی حامل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اب تک سلامتی کونسل نے تیسری بار کشمیر کے تنازعے کو زیر بحث لایا ہے تاہم اقوام متحدہ کی اس طاقتور باڈی کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس ورچوئل میٹنگ کے بعد کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔
یورپ میں آباد کشمیری برادری اس وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی پر بہت پژمردہ ہے۔ 'کشمیر کونسل ای یو‘ برسلز میں قائم ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد یورپی سطح پر جموں و کشمیر کی صورتحال اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ان شہریوں کو ان کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق سے محروم رکھے جانے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات عام کرنا ہے۔ اس کونسل کا مشن جموں و کشمیر کی مسلم آبادی کے انسانی حقوق کی پامالی ختم کروانا اور مغربی طاقتوں کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کروانا ہے۔
کشمیر کونسل ای یو کی روح رواں علی رضا سید نے یورپی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے علی رضا سید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف کشمیری عوام کی اپنی کوششوں سے نکل سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی سیاسی اور سفارتی کوششیں کا کوئی مثبت نتیجہ نظر آ رہا ہے؟ اُن کا کہنا تھا،'' گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیری عوام کے مصائب و آلام میں تو کوئی کمی نہیں آئی۔ جتنی بھی کوششیں کی جا چُکی ہیں اُن کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ اب تک عالمی برادری کو ہم اس بات کے لیے قائل نہیں کر پائے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘
علی رضا سید کا کہنا ہے کہ بحیثیت ایک کشمیری انہیں سب سے زیادہ ملال اس بات کا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہونے والی کوششوں کے اثرات جموں و کشمیر میں ظلم و زیادتی کے شکار کشمیری عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان دونوں کی طرف سے محض ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے؟ تو ان کا جواب تھا،'' اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مسئلہ کشمیر پر سیاست ہو رہی ہے۔ اصل فریق تو خود کشمیری ہیں جب تک اُن کی نہیں سنی جائے گی تب تک مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ 15 ملین کشمیریوں کا ہے ، ایک انسانی مسئلہ ہے، یہ کوئی بارڈر کا جھگڑا نہیں ہے۔ کشمیری ہی خود اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ کوئی دوسرا ان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
کشمیری عوام اپنی آزادی اور بنیادی حقوق کے حصول میں اب تک کیوں ناکام رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کشمیر کونسل ای یو کے صدر علی رضا سید کہتے ہیں،'' اس کے قصوروار خود کشمیری ہیں۔ کشمیری عوام متحد نہیں ہیں۔ کشمیریوں کی متعدد تنظیمیں ہیں۔ کشمیری چاہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہوں با بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ان میں اتحاد نہیں پایا جاتا۔ جب تک اتحاد کا فقدان ہے تب تک ان کی آواز کسی سطح پر بھی نہیں سنی جائے گی۔‘‘
علی رضا سید کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بحران کے حل کی اولین ذمہ داری خود کشمیریوں پر عائد ہوتی ہے۔ کشمیریوں کی ایک آواز ہونی چاہیے جو اپنے حق خود مختاری کے لیے وہ خود بلند کریں۔ تحریک کشمیر کی قیادت خود کشمیریوں کو کرنا ہوگی۔ یورپی پارلیمان میں کشمیریوں کے موقف کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا کیونکہ کشمیریوں کا کوئی ایک متحدہ مقصد و موقف نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا،''مغربی طاقتیں ہماری بات کو تب ہی سچ سمجھیں گی، جب کشمیری متحد ہو کر اپنی آزادی اور اپنے حقوق کے لیے خود اپنی بات ان تک پہنچائیں گے۔ ہم کشمیری اپنے مصائب اور مسائل کی حقیقت کے بارے میں مغربی طاقتوں کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم اس کا ذمہ دار کسی اور کو نہیں ٹھہرا سکتے۔‘‘
کشمیر کونسل ای یو کے صدر علی رضا سید نے تاہم امید ظاہر کی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ان کے مسائل کو یورپ اور دیگر خطوں میں بسنے والے کشمیری بھی محسوس کریں گے اور اس کے خلاف تمام کشمیری متحد ہو کر اپنی آواز بلند کریں گے۔
اُدھر برطانیہ میں سرگرم تحریک کشمیر کے ساؤتھ زون کے سابق جنرل سکریٹری ڈاکٹر اسامہ ایوب نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے تناظر میں کیے جانے والے حالیہ اقدامات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے پاکستان کا نیا نقشہ پیش کرکے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش جیسے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ ایوب نے کہا، ''بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کو کسی صورت اپنا حصہ ثابت کرنے کے لیے کبھی کسی نقشے کا سہارا لیتے ہیں کبھی کچھ اور کیا جاتا ہے۔ یہ امر دراصل اصولی طور پر غلط ہے کہ دونوں ممالک خود ہی کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چاہے پاکستان بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے یا بھارت پاکستانی کشمیر پر اپنا دعویٰ کرے یہ صریحاً غلط ہے۔ اس میں کشمیریوں کی رائے کہاں ہے؟ کشمیریوں کو ان کا حق رائے دہی ملنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی کشمیر کو کسی نقشے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسامہ ایوب نے کہا کہ کشمیریوں کی رائے کا کوئی احترام نہیں کیا جا رہا۔ اس وقت سیاسی اور سفارتی رسہ کشی جاری ہے دونوں طرف سے کشمیریوں کو اپنی طرف کھنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیری بھارت اور پاکستان دونوں کے زیر انتظام حصے میں موجود ہیں۔ ان دونوں کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انہیں اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت ان کے بنیادی حقوق اور حق رائے دہی ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا،'' برائے مہربانی ہمیں دونوں طرف سے کھینچا تانی کی سیاست کا شکار نا بنائیں۔‘‘
کشور مصطفیٰ/ عاطف توقیر